پاکستان میں سیاسی بے یقینی اس وقت ایک آئینی بحران میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن کے تمام ارکان کو ملک کا غدار قرار دیتے ہوئے عدم اعتماد کے ووٹ کو روکا تو چند ہی منٹ بعد وزیر اعظم نے ایوان میں اکثریت کھونے کے بعد اسمبلی توڑ دی جو کہ آئین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔
پاکستان میں جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لئے یہ کمزور بہانہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ایک بار پھر 1954 کے اسی گناہِ اولین کی یاد دلاتا ہے جب اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے قانون ساز اسمبلی توڑ دی تھی۔ اس ایک ماورائے آئین مداخلت کو ایلن مک گریتھ جیسے محققین نے 'جمہوریت کی تباہی' قرار دیا ہے اور افسوس کہ آج تک ملک اس سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
عمران خان جو کہ 2018 سے 'ہائبرڈ طرزِ حکومت' کا چہرہ رہے ہیں، اس حکمتِ عملی کو 2022 میں پھر استعمال کر رہے ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ عمران خان ایک منتخب حکمران ہیں، اگرچہ ان انتخابات کی شفافیت پر بھی بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ یقینی طور پر ان کے لئے اور ان کے حواریوں کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ انہوں نے پچھلے چار سالوں میں آرڈیننس کے ذریعے ہی حکومت چلائی ہے اور پارلیمان کو بے وقعت کر چھوڑا ہے۔
پاکستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی غیر آئینی مداخلت ہوئی، اس کے نتائج تباہ کن نکلے۔ سوچیے۔ اتوار سے پاکستان میں حکومت نہیں۔ یہاں ایک خلا ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں۔ ایک ایٹمی ریاست جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، جس کے مشرقی اور مغربی محاذوں پر تناؤ موجود ہے، اس وقت بنانا ریپبلک کی شکل پیش کر رہا ہے اور اس کی وجہ صرف ایک جلد باز لیڈر ہے جو ایک بڑے قومی اخبار کے مطابق 'جمہوری نظام میں کوئی عوامی عہدہ رکھنے کا اہل نہیں'۔
ایک تخیلاتی دنیا میں ہی ممکن دکھائی دیتا تھا کہ معاشی تباہی اور متعدد علیحدگی پسند تحریکوں سے جھوجھتا ملک چند منٹ میں مایوسی کے اندھیروں کی طرف صرف اس لئے دھکیل دیا جائے کہ ایک شخص قانونی طور پر حکمران رہنے کا اختیار کھو دینے کے باوجود کرسی سے چپکے رہنا چاہتا ہے۔
اس موجودہ سیاسی بحران نے دہائیوں کی جمہوری جدوجہد، سیاسی تحاریک، وزرائے اعظم کے قتل اور بہت سے سیاسی کارکنان کی قربانیوں کے نتیجے میں ملنے والی سلطانی آئین کو بھی بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ عمران خان اس جمہوری جدوجہد کا کبھی بھی حصہ نہیں تھے اور ان کی مبینہ '22 سالہ جدوجہد' صرف خود نمائی کے لئے تھی۔ اپنے 1992 ورلڈ کپ کی ٹرافی کے ساتھ محض ایک اور ٹرافی جیتنے کی خواہش تھی۔ مؤرخ لکھے گا کہ یہ دونوں کپ پاکستان کو بہت مہنگے پڑے۔ پہلے کپ نے ان کو اقتدار کا دعویدار بنا ڈالا، دوسرے کپ نے پاکستان کی معیشت اور آئین کو تباہ کر دیا۔
دراصل، عمران خان کے اقتدار کا خاتمہ صرف ایک تباہ حال معیشت اور عوامی سطح پر مزید غربت پر نہیں ہو رہا بلکہ انہوں نے امریکہ کی جانب سے اپنی حکومت برطرف کرنے کی سازش کا ایک کھوکھلا دعویٰ بھی عوام میں عام کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ ان کے حمایتی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے چلنے والے فیک نیوز کے اداروں کی مدد سے پھیلانے میں مصروف ہیں۔
جو ہو گیا سو ہو گیا۔ لیکن قوم کے سامنے اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ ایک مرتبہ پھر وہی غلطی دہرائے گی جو 1955 میں جسٹس منیر نے کی تھی جب انہوں نے گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے قانون ساز اسمبلی توڑنے کے عمل کو جائز قرار دے دیا تھا۔ ابتدائی اشارے حوصلہ افزا نہیں۔ اتوار کو بڑے کر و فر کے ساتھ سو موٹو نوٹس لینے کے بعد سپریم کورٹ نے اگلے دو دن میں اس معاملے کو ایک معمول کی پٹیشن بنا چھوڑا ہے۔ اور اگر عدالت سے کوئی ریلیف ملتا بھی ہے تو بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آئین توڑنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی۔ کم از کم ہماری تاریخ کے افسوسناک ابواب تو امید کی کوئی وجہ فراہم نہیں کرتے۔
یہ بھی صاف ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق کردہ ہائبرڈ حکومت اب قابلِ عمل نہیں رہی اور اتوار 3 اپریل 2022 کو اپنی موت آپ ہی مر گیا۔ شاید اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جس وقت قوم ٹی وی پر گھڑی سازشی تھیوریوں اور سپریم کورٹ کی کارروائی دیکھنے میں مگن ہے، کیا کہیں ایک نئی ہائبرڈ رجیم کی بنیاد رکھی جا رہی ہے؟
بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ فوج میں نومبر 2022 میں ہونے والی بہت سی تقرریوں، ترقیوں اور تبادلوں نے موجودہ غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی صورت میں متحدہ اپوزیشن اپنا مقام کھو چکی ہے کیونکہ اس نے صاف شفاف انتخابات کے ذریعے ایک حقیقی انتقالِ اقتدار کے لئے عوامی بیانیہ بنانے کے بجائے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کا رستہ چنا۔ یہ درست ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد آئینی طریقہ کار کے تحت ہی لائی جا رہی تھی لیکن اس کے لئے جو طریقہ استعمال کیا گیا اس سے قدیم محاورے کے مصداق اونٹ کو خیمے میں گھسنے کی جگہ مل گئی اور اس نے سول ملٹری تعلقات کو نئے خطوط پر استوار کرنے کے لئے ایک باشعور عوامی مہم کے تمام راستے مسدود کر دیے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں – خصوصاً مسلم لیگ ن – یہ چاہتی ہیں کہ صورتحال کو ٹھیک کیا جائے تو ان کے پاس اپنے حلقوں میں جا کر اس مقصد کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وہ تبدیلی کا اختیار غیر منتخب اداروں کو نہیں دے سکتیں۔
رواں ہفتے ہی توقع ہے کہ سپریم کورٹ اتوار کو اٹھائے گئے غیر آئینی اقدام کے معاملے پر فیصلہ دے گی۔ عدالت مندرجہ ذیل میں سے کوئی ایک فیصلہ دے گی: i) اتوار کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دے کر حکومت کو انہیں واپس لینے پر مجبور کر دے، ii) اقدامات کو غیر قانونی قرار دے لیکن 1988 کی طرح انتخابات کو ہونے دے، اور iii) نظریۂ ضرورت کے تحت موجودہ ہائبرڈ نظام کو جاری رکھنے میں اپنا حصہ ڈالے۔
اس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ صرف اول الذکر ہی موجودہ بحران کو حل کرنے کا واحد طریقہ ہے اور یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ باقی تمام آپشنز حالات مزید خراب کریں گی اور انارکی اور سیاسی تناؤ مزید بڑھانے کا مؤجب بنیں گی۔ 2012 میں سپریم کورٹ نے فاتحانہ انداز میں اعلان کیا تھا کہ اس نے نظریۂ ضرورت کو دفن کر دیا ہے۔ ایک سویلین کو کے بعد ہوا الیکشن ایسی صورت میں قوم کے ساتھ ایک بدترین مذاق ہوگا۔
اتوار کی صبح نظام کو لگنے والے دھچکے کو اگر سپریم کورٹ نے درست نہ کیا تو یہ فسطائیت کو معمول کی بات بنانے کا مؤجب ہوگا اور آنے والے سالوں کے لئے ایک خطرناک نظیر بنے گا۔