تحریر: ( ارشد سلہری) یہ 2009کی بات ہے، اسلام آباد کے علاقے موہڑہ نور میں تحریک انصاف کے کارکن طاہر راجپوت نے مدعو کر رکھا تھا۔ ان دنوں زیادہ تر لوگ پی ٹی آئی کو مذاق کے موڈ لیتے تھے مگر طاہر راجپوت بڑے یقین کے ساتھ کہہ رہا تھا کہ تحریک انصاف ملک کی پہلی سیاسی جماعت ہوگی جس میں کارکن لیڈر بنیں گے اور جماعت میں کارکنوں کی عزت ہوگی۔
دوسری سیاسی جماعتوں پر کڑی تنقید کر رہے تھے کہ دوسری جماعتوں میں کارکن دن رات کام کرتے ہیں۔ اپنے مال، وقت اور جان تک کی قربانی دیتے ہیں مگر کوئی قدر نہیں ہے۔ دھن دولت رکھنے والے آتے ہیں اور پارٹی عہدوں پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ تحریک انصاف میں میرٹ ہوگا۔ کارکن سب سے آگے ہوں گے۔ عمران خان پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ کبھی کارکنوں کوجماعت میں نظر انداز نہیں کریں گے اور نہ ہی کرنے دیں گے۔
طاہر راجپوت خلوص نیت اور لگن سے تحریک انصاف کی بنیادیں مضبوط کرتے رہے ہیں۔ اکیلے ہی نہیں بلکہ پورے خاندان ،رشتہ داروں کو بھی تحریک انصاف کی ٹیم میں شامل کیا۔ بھانجا محسن ملک تو جیسے طاہر راجپوت کا ہمزاد ہو۔ ہر موقع، ہر جگہ، ریلی ہے، جلسہ ہے، بنی گالہ میں کوئی پروگرام ہے، طاہر راجپوت کے ساتھ ساتھ ہے۔
دھرنے کے دنوں میں تو جیسے کوئی انقلابی فریضہ انجام دے رہے ہوں۔ ایسے دن رات اپنی صحت ،کاروبار اور گھر کی پروا کیے بغیر تحریکی کام میں مصروف نظر آتے رہے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں اپنے امیدوار خرم نواز راجہ اور پھر علی نواز کی انتخابی مہم ہمہ وقت چلاتے ہوئے نظر آئے۔
پیپلزپارٹی کے جیالوں کے علاوہ آج تک کسی دوسری پارٹی کے کارکنوں کو ایسے محنت ،لگن اور خود کو وقف کیے ہوئے کام کرتے نہیں دیکھا ہے ۔ ماسوائے تحریک انصاف کے طاہر راجپوت کے کہ جنہوں نے پی پی کے جیالوں کو بھی مات دیدی۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں تحریک انصاف کی مقامی تنظیم نو کے نوٹیفکیشن جاری ہوئے جو کسی نے فیس بک پر شیئر کیے تھے۔ نئے عہدے داروں کی لسٹ دیکھی۔ ایک ایک نام چیک کیا مگر طاہر راجپوت کا نام لسٹ میں نہیں تھا۔
طاہر راجپوت کو فون کیا اور ازرائے مذاق پوچھا کہ ملک کی پہلی کارکنوں کو نظر انداز نہ کرنے والی جماعت نے ایک پرانے اور انتھک محنت کرنے والے کارکن کو نظرانداز کر دیا ہے۔ بلند آواز میں ہستے ہوئے طاہر نے کہا کہ پارٹی کا فیصلہ ہے۔ اگر میرے حق میں نہیں ہے تو پھر بھی قبول ہے جس دن اعلیٰ قیادت تک بات گئی تو وہ نظر انداز نہیں کرے گی۔ یہ نئے لوگ ہیں ۔ شاید انہیں میری تحریک میں خدمات کا علم ہی نہ ہو۔ ورغلانے والے انداز میں طاہر کو کہا کہ یار کس مٹی کے بنے ہو ۔ احتجاج کرو ۔ قیادت سے بات کرو، اپنی پارٹی کے ساتھ دیرنیہ وابستگی اور خدمات کے بارے میں بتاو مگر طاہر ہستے رہے۔ شاید کچھ دوستوں نے سوشل میڈیا پر احتجاجی پوسٹیں لگائی بھی تھیں اور علی نواز سے ملاقات بھی کی تھی۔ طاہر راجپوت کی مثال شاید افسانہ لگے مگر پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی تاریخ میں کارکنوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا رہا ہے۔
ہر سیاسی جماعت کا ورکر طاہر راجپوت بن کر ہی اپنی پارٹی کے لئے اس امید کے ساتھ جدوجہد کرتا ہے کہ حالات تبدیل ہونگے تو ان کی محرومیاں بھی ختم ہونگی اور وہ بھی بنیادی انسانی ضروریات سے مستفید ہو گا۔ اس کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور فخر سے سر اونچا کر کے بتا سکے گا کہ گلستان کی تزئین میں اس کا بھی برابر کا حصہ ہے مگربدقسمتی سے کارکن کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ جب اس کی اپنی پارٹی برسر اقتدار آتی ہے تو کارکنوں کوبری طرح سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ابن وقت ،خوشامدی اور چاپلوش پارٹی عہدوں سمیت حکومتی ثمرات سے لطف اٹھارہے ہوتے ہیں اور کارکن بیچارے اپنے معمولی معمولی کاموں کے لئے بے بسی کی تصویر بنے ان کے دفاتر کی انتظارگاہوں میں بیٹھ کر مایوسی لیکر گھر لوٹتے ہیں اور اپنے گھر والوں سے جھوٹ بول کر اپنی عزت بچانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں مگرکہانی کھل جاتی ہے کیوں کہ چہرے پر پشمانی کے آثارساری داستان کی فلم دیکھا رہے ہوتے ہیں کہ برسراقتدار پارٹی کے کارکن کے ساتھ کیا بیتی ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت اور وزیراعظم عمران خان ، تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی سے مطالبہ کرتا ہوں کہ کارکنوں کونظرانداز مت کریں جن کے کندھوں پر سوار ہو کر آج کرسی اقتدار پر براجمان ہو ۔ اگر آج کارکنوں کو نہ پوچھا گیا تو پھر طاہر راجپوت کسی جماعت میں پیدا نہیں ہونگے ۔