بوٹ ان سیاسی جماعتوں کے منہ پر طمانچہ تھا، جنہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد تحریک انصاف کو بوٹ چاٹنے کے طعنے دے کر رکھی، فیصل واوڈا

بوٹ ان سیاسی جماعتوں کے منہ پر طمانچہ تھا، جنہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد تحریک انصاف کو بوٹ چاٹنے کے طعنے دے کر رکھی، فیصل واوڈا
فیصل واوڈا کا اپنے ٹویٹر پیغام میں کہنا تھا کہ آج کا بوٹ دراصل ان سیاسی جماعتوں کے منہ پر طمانچہ ہے جنہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد تحریک انصاف کو بوٹ چاٹنے کے طعنے دے کر رکھی تھی۔ البتہ خوشی ہوئی کہ بالآخر مریم بھی اپنی ٹیم سے افواج کا احترام کروا رہی ہے۔ یہ اچھی شروعات ہے۔

https://twitter.com/FaisalVawdaPTI/status/1217162420470403072?s=20

 

یاد رہے کہ منگل کی شام اے آر وائے پر کاشف عباسی کے پروگرام ’آف دی ریکارڈُ‘ پر وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی فیصل واؤڈا، مسلم لیگ نواز کے سینیٹر محمد جاوید عباسی اور پیپلز پارٹی رہنما قمر الزمان کائرہ بطور مہمان مدعو تھے۔

پروگرام کا اصل مدعا تو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی علالت تھا لیکن فیصل واؤڈا سے ابتدائی سوال کیا گیا کہ ان کے خیال میں نواز شریف بیمار ہیں یا نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے دن سے اس بات پر قائل ہیں کہ نواز شریف بیمار نہیں بلکہ وہ اس لئے باہر ہیں کیونکہ وہ مؤقف پر ڈٹے نہیں اور مریم نواز نے ٹوئٹر بند کر دیا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی سیاسی فائدہ، یا کوئی ڈیل ممکن ہوگی۔ اس کے بعد وفاقی وزیر نے ایک فوجی بوٹ اٹھایا اور کیمرے کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے کہا کہ آج کی مسلم لیگ نواز ’ووٹ کو عزت دو‘ نہیں بلکہ ’بوٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے پر کھڑی ہے۔ جاوید عباسی اور قمر الزمان کائرہ نے بطور احتجاج اس پروگرام سے واک آؤٹ کر دیا لیکن اس سے قبل کائرہ صاحب یہ باور کروانا نہیں بھولے کہ جو کچھ فیصل واؤڈا صاحب کر رہے ہیں، اس سے پاکستانی افواج کی بدنامی ہو رہی ہے، کیونکہ وزیرِ موصوف کی اس حرکت سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ آرمی ایکٹ ترمیم میں اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حکومتی جماعت کے کہنے پر نہیں تھی، بلکہ فوج کے کہنے پر کی گئی تھی۔یہ پورا پروگرام بوٹ میز پر رکھ کر کیا گیا۔

فیصل واوڈا کے اس اقدام پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ ویسے جتنی بُوٹ کو عزت پی ٹی آئی نے دلوا دی ہے ستر سال میں کو ئیُ جماعت نہیں دلا سکی۔ یہ کریڈٹ تو پی ٹی آئی اور فیصل واوڈا بُوٹ والے کو جاتا ہے۔

https://twitter.com/asmashirazi/status/1217179606161248257?s=20

طلعت حسین نے لکھا کہ فیصل واوڈا فوجی بوٹ کے ساتھ ٹی وی پروگرام میں آۓ۔ ن لیگ کو چاٹنے کا طعنہ دیا۔ ثابت کیا سب کچھ فوج کروا رہی ہے۔پھر آرام سے بوٹ کے سنگ مسکراتے میزبان کی موجودگی میں تمام وقت گزارا۔

https://twitter.com/TalatHussain12/status/1217130696914939909?s=20

صحافی وسیم عباسی نے لکھا کہ کیا یہ جوتا دکھا کر قوم اور اداروں کی توہین نہیں کی گئی؟ اور کیا اے آر وائی اور کاشف عباسی کی توہین نہیں کی گئی؟

https://twitter.com/Wabbasi007/status/1217113574621032450?s=20

عمر چیمہ نے لکھا کہ سنسر شپ کیخلاف سب سے بڑی جنگ کل فیصل واوڈا نے لڑی ہے۔

https://twitter.com/UmarCheema1/status/1217354983127031810?s=20

ٹی وی اور ریڈیو کے مشہور نام ضیا الرحمٰن نے لکھا: ’وزیراعظم آفس میں ایسا کوئی ہے جو فیصل واوڈا، شہریار آفریدی، فیاض الحسن چوہان، علی خان اور دیگر وزرا کی کارکردگیوں پر نظر رکھ سکے۔ اگر کوئی نہیں ہے تو کم از کم انہیں بیانات دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘


https://twitter.com/ZiaurRe10899881/status/1217116044600496129?s=20

 

صحافی علی وارثی نے لکھا کہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فیصل واؤڈا نے آج پانچ سال قبل پارلیمنٹ میں تحریکِ انصاف کی ہونے والی اس بے عزتی کا بدلہ لے لیا ہے جو خواجہ آصف نے ’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘ کہہ کر کی تھی۔ فیصل واؤڈا نام تو صرف مسلم لیگ نواز کا لے رہے تھے، لیکن ایک پنجابی محاورے کے مطابق "کہنا دھی نوں، سنانا نوں” والی بات بھی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج فیصل واؤڈا نے اپوزیشن جماعتوں کو ہی شرمندہ نہیں کیا، انہوں نے پاکستانی سیاست کے پورے نظام کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ فیصل واوڈا سرخیوں میں رہے ، فروری 2019 میں ایل او سی پر گرائے جانے والے بھارتی طیارے کے ساتھ تصاویربنوانے پر وزیراعظم نے سخت ناپسندیدگی کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا وزیر کا یہ کام ہے کہ وہ گرائے گئے دشمن کے طیارے پر کھڑے ہو کر تصاویر بنوائے؟ شکر ہے کہ آپ پستول لے کر لائن آف کنٹرول پار نہیں کرگئے۔

فروری 2019 میں ہی ایک کروڑ مالیت کے لگ بھگ لگژری اسپورٹس کار میں بیٹھے تصاویر وائرل ہونے پر بھی سوشل میڈیا صارفین نے حکومت کے ’’سادگی ‘‘ اپنانے کے دعوؤں اور وزرا کی جانب سے ہی ان دعوؤں کی نفی پر خاصی مایوس کا اظہار کیا تھا۔

نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کے وقت بھی ہاتھ میں پستول لیکربلٹ پروف جیکٹ پہنے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے جس پر اُنہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔