عیدالاضحیٰ کی آمد تھی اور گاؤں میں ہر کوئی قربانی کے جانور خریدنے کے ساتھ ساتھ اپنے رشتہ داروں کے آنے کا بھی منتظر تھا جو ملک کے دور دراز علاقوں میں مزدوری کرنے جاتے ہیں اور عید پر کئی مہینوں بعد اپنے رشتہ داروں سے ملنے واپس لوٹتے ہیں۔ میرا انتظار بھی تھا کہ میرے بیٹے عید پر اپنے گھر واپس آئیں گے اور ہم مل کر قربانی کریں گے، عید کی خوشیوں کو دوبالا کریں گے۔ دن گزرتے گئے اور عید سے ایک روز پہلے میرے دونوں بیٹے راولپنڈی سے محنت مزدوری کرنے کے بعد واپس لوٹے اور گھر میں ایک خوشی اور جشن کا سماں تھا۔ گاؤں کے دیگر درجنوں نوجوان بھی راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں سے واپس لوٹے تھے اور رات دیر تک گاؤں کے ہجروں (مہمان خانوں) میں بڑے، نوجوان اور بچے خوش گپیوں میں مصروف رہے کیونکہ مہینوں اور کچھ تو سالوں بعد مل رہے تھے۔
دیگر گھروں کی طرح ہمارے گھر میں بھی خوشی کا ماحول تھا اور بیٹوں، بھتیجوں اور بھانجوں کی عید پر آمد سے جیسے گھر کی خوشی دوبارہ لوٹ آئی تھی۔
عید کا دن خوشی خوشی گزر گیا اور اس طرح عید کے باقی تین دن بھی گزر گئے۔ عید کے پانچویں روز جمعے کا دن تھا اور میں نماز جمعہ سے پہلے میں کسی کام کی غرض سے دوسرے گاؤں جانے کی تیاری میں مصروف تھا۔ گھر سے نکل گیا تو راستے میں گاؤں کے دیگر نوجوانوں کے ساتھ میرے بیٹے اور بھتیجے گاؤں کے ایک کھیت میں کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے اور میں دوسرے گاؤں چلا گیا۔ دوسرے گاؤں میں کام کے سلسلے میں لوگوں سے مل رہا تھا کہ کسی نے اطلاع دی کہ آپ کے گاؤں کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش حملہ ہوا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ میں نے اسی لمحے گاؤں کا رُخ کیا اور واپسی پر میرے دل میں وسوسے پیدا ہو رہے تھے کہ اللہ میرے گاؤں کی حفاظت فرمائے۔
گاؤں کے راستے میں سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں سمیت سینکڑوں لوگ پہنچ چکے تھے اور میں بھی گاڑی سے اُتر کر گھر کی طرف بھاگ رہا تھا کہ اس دوران میرے پاؤں نے میراساتھ چھوڑ دیا اور میں اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔
میرے سامنے عجیب منظر تھا۔ میرے گھر کے سامنے کھیت میں چار قبریں تیار ہو رہی تھیں اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میرا پورا خاندان برباد ہو چکا ہے۔ مجھے اپنے آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ہمت کر کے میں گھر کے اندر داخل ہوا تو سامنے تین چارپائیوں پر میرے بیٹوں کی لاشیں پڑی تھیں جب کہ چوتھے بیٹے کی لاش کچھ لمحے بعد لائی گئی۔ زندگی میں ہی ایک بار مجھ پر قیامت گزر گئی ہے کیونکہ چار بیٹوں کو دفن کرنا کسی قیامت سے کم نہ تھا۔
یہ کہانی 60 سالہ رنڑا خان کی ہے جو خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند کا رہائشی ہے۔ 16 ستمبر 2016 کو ضلع مہمند کے علاقے امبار کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ایک خودکش حملہ آور نے خود کو مسجد کے برامدے میں اُڑا دیا جس میں رنڑا خان کے چار بیٹوں سمیت 37 افراد جاں بحق ہو گئے جب کہ درجنوں افراد زخمی یا معذور ہو گئے تھے۔
ضلع مہمند کے اس گاؤں کے زیادہ تر نوجوان راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور اور کراچی میں کاروبار کرنے جاتے ہیں اور زیادہ تر نوجوان موبائل چارجرز، ہیڈ فونز اور موبائل کے باڈی کورز بیچتے ہیں۔ رنڑا خان کے بیٹے بھی اس کاروبار سے وابستہ تھے۔
گُل پور خان کا تعلق بھی امبار کے علاقے سے ہے اور خودکُش حملے کے دن وہ مسجد کے کمرے میں نماز جمعہ ادا کر رہے تھے۔ ان کے مطابق وہ لمحات ناقابل فراموش تھے اور ہمیں ایسے ہی لگا جسے قیامت ڈھا دی گئی ہے۔ گُل پور خان نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ میں مسجد کے کمرے میں پہلی قطار میں نماز ادا کر رہا تھا جب کہ نوجوان اور بچے برآمدے میں نماز ادا کر رہے تھے۔ میں دوسری رکعت میں سجدہ ریز تھا کہ اس دوران تیز آواز میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا اور اس کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ گل پور خان کے مطابق بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کی کراہنے کی تیز آوازیں آ رہی تھیں مگر کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہی دماغ کام کر رہا تھا کہ کیا کریں۔ کچھ وقت کے بعد جب دھول اور مٹی کا غبار کم ہوا تو باہر انسانی اعضا بکھرے پڑے تھے اور ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ گل پور خان کے مطابق دھماکے کے بعد برآمدے کی چھت زمین بوس ہو گئی تھی۔ نہ ایمبولینس تھی نہ کچھ اور، بس مقامی گاڑیوں میں دو، دو اور تین، تین زخمیوں کو ڈالا گیا اور تقریباً دو گھنٹے بعد امدادی ٹیمیں اور سکیورٹی فورسز کے دستے پہنچنا شروع ہو گئے مگر وہ دن قیامت کا تھا جس کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے اور اپنے علاقے میں امن و امان قائم رکھنے اور امن کمیٹیاں تشکیل دینے کی سزا ہمارے معصوم بچوں کو دی گئی جو کم عمری میں اپنے خوابوں کے ساتھ دفن ہو گئے۔
اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان سے جُدا ہونے والی تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کی تھی اور عینی شاہدین کے مطابق نماز جمعہ میں داخل ہونے والے خودکُش حملہ آور کی عمر پندرہ سے سترہ سال کے درمیان تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق جب گاؤں کے لوگ نماز جمعہ ادا کر رہے تھے تو خودکُش حملہ آور نے مسجد کے قریب واقع ایک گھر پر دستک دی اور پینے کے لئے پانی مانگا اور پانی پینے کے بعد وہ مسجد کی طرف روانہ ہوا۔ عینی شاہد خاتون کے مطابق خودکش حملہ آور کی عمر پندرہ سے سترہ سال کے درمیان تھی اور پانی مانگتے وقت وہ گھبرایا ہوا تھا۔
ضلع مہمند جو سابقہ فاٹا کی ایک ایجنسی تھی اس کے مغرب میں افغانستان کا صوبہ ننگرہار جب کہ مشرق کی طرف ضلع چارسدہ واقع ہے اور اس کا رقبہ تقریباً 2296 مربع کلومیٹر ہے۔ آبادی تقریباً 5 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ 9/11 کے بعد مہمند میں عسکریت پسند متحد ہو رہے تھے لیکن 27 جولائی 2007 کو عسکریت پسندوں نے تحصیل صافی کے علاقے لکڑو بازار میں مشہور جنگ آزادی کے ہیرو حاجی صاحب ترنگزئی کے مزار پر قبضہ کر کے اسے لال مسجد کا نام دے دیا تھا، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے حکومتی عملداری کی بحالی کے لئے آپریشن کا آغاز کر دیا۔ ضلع مہمند میں حاجی ترنگزئی کے مزار پر قبضہ اور اسے لال مسجد کا نام دینا پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کے لال مسجد آپریشن کے جواب میں سامنے آیا۔ مہمند میں عسکریت پسندوں کی یہ کارروائی لال مسجد کی جانب سے حکومت مخالف بیانیے کے ساتھ کھڑے ہونے کے بعد کی گئی۔ اس قبضے کے بعد نہ صرف ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے ضلع مہمند کا رُخ کیا بلکہ اس کے ساتھ غیر ملکی عسکریت پسندوں نے بھی ضلع مہمند کا رُخ کیا جس کے بعد ضلع مہمند کی تزویراتی اہمیت بڑھ گئی۔ مہمند ماضی میں دو بڑے خودکُش حملوں کا نشانہ بنا ایک خودکُش حملہ ضلع کے ہیڈ کوارٹر غلنی میں اس وقت کیا گیا جب امن کمیٹیوں کے رضاکاروں سمیت قبائلی عمائدین ایک جرگے میں مصروف تھے۔ اس میں صحافیوں اور سیاسی کارکنوں سمیت قبائلی عمائدین اور امن کمیٹیوں کے درجنوں افراد مارے گئے۔ دوسرا خودکش حملہ ضلع مہمند کی لوئر سب ڈویژن یکہ غنڈ میں ضلعی انتظامیہ کے دفتر کے قریب ہوا جس میں سو سے زائد افراد مارے گئے۔ سکیورٹی فورسز نے مہمند میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف تین آپریشنز کیے جن میں نمایاں آپریشن بریخنا (تھنڈر) تھا اور اس میں عسکریت پسندوں کو پڑوسی ملک افغانستان کی جانب دھکیل دیا گیا۔
مہمند میں 2009 میں فوجی آپریشنز کے دوران 50 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے اور انہوں نے پشاور سمیت راولپنڈی اور ملحقہ چارسدہ میں پناہ لی۔ ضلع مہمند میں عسکریت پسندوں نے سب سے زیادہ تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچایا اور ضلع میں 130 سے زائد سرکاری سکولوں کو بارودی مواد سے اُڑا دیا گیا۔
سابقہ فاٹا کے قبائلی علاقوں سمیت ضلع مہمند میں بھی تیزی سے بدلتے سکیورٹی حالات کے پیش نظر مقامی لوگوں نے حکومت اور سکیورٹی فورسز کے احکامات پر اسلحہ اُٹھا کر امن کمیٹیاں قائم کیں اور عسکریت پسندوں کا مقابلہ کیا۔ قبائلی اضلاع میں سینکڑوں امن کمیٹی کے رضاکاروں کو ملک کے طول و عرض میں چُن چُن کر نشانہ بنایا گیا۔ ضلع مہمند کے امبار کے علاقے کی امن کمیٹی بھی ایک مضبوط کمیٹی تھی جس نے عسکریت پسندوں کے خلاف سخت مزاحمت کی۔
پشاور میں عرصہ دراز سے قبائلی اضلاع کی سکیورٹی پر نظر رکھنے والے تحقیقاتی صحافی لحاظ علی کے مطابق خیبر پختونخوا کے بندوبستی علاقوں سمیت قبائلی اضلاع میں ضلعی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز نے امن کمیٹیاں قائم کیں جن کو ریاست کی پشت پناہی حاصل تھی اور ان امن کمیٹیوں کو مختلف نام دیے گئے۔ ان کو ریاست کی جانب سے اسلحہ فراہم کرنے کے علاوہ ماہانہ تنخواہ کا اعلان بھی کیا گیا۔ لحاظ علی کے مطابق سب سے پہلا اعتراض ان کمیٹیوں پر یہ آیا کہ ریاست کس طرح اپنے شہریوں کو مسلح کر سکتی ہے جب کہ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ ان میں زیادہ تر منشیات اور جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو بھرتی کیا گیا تھا۔ لحاظ علی کے مطابق عسکریت پسندوں کے خلاف لڑنا ریاست کا کام تھا مگر یہ ذمہ داری عام لوگوں پر ڈال دی گئی اور عسکریت پسند تنظیموں کو معلوم ہوا کہ کون اُن کے خلاف ریاست کا ساتھ دے رہا ہے۔ عسکریت پسندوں کے لئے جب ٹارگٹ واضح ہوا تو انہوں نے امن کمیٹیوں کے ان رضاکاروں کو خودکش حملوں، دیسی ساختہ بموں اور ٹارگٹ کلنگز کے ذریعے نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ کمیٹیاں مسلح تھیں تب بھی یہ دہشتگردوں کے نشانے پر تھیں اور ملک کے طول و عرض میں ان کو نشانہ بنایا گیا لیکن یہ امن کمیٹیاں اُس وقت کے صوبہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن کے گورنر سردار مہتاب عباسی کے وقت میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر غیر مسلح کی گئیں اور عسکریت پسندوں کے لئے ان کو نشانہ بنانا اور بھی آسان ہو گیا۔ اُن کو خیبر پختونخوا سمیت جہاں جہاں یہ لوگ اپنی زندگی کے تحفظ کی خاطر روپوش تھے، نشانہ بنایا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ لحاظ علی کا کہنا ہے کہ بندوبستی علاقوں سمیت قبائلی اضلاع میں امن کمیٹیوں کے درجنوں رضاکاروں کو نشانہ بنایا گیا اور ضلع باجوڑ میں امن کمیٹیوں کے شہدا کی یادگار بھی قائم کی گئی ہے۔ ریاستی سرپرستی سے محروم ہونے کے بعد امن کمیٹی کے یہ رضاکار عسکریت پسندوں کے رحم و کرم پر تھے اور جہاں جہاں یہ گئے عسکریت پسندوں نے ان کو ٹارگٹ کیا۔
واضح رہے کہ امن کمیٹیوں اور ان کے ممبران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی سامنے آئے تھے اور رپورٹس کے مطابق بعض کمیٹیوں کے اراکین نے طاقت ملنے کے بعد اپنے مخالفین کو نشانہ بنایا۔
رنڑا خان کے مطابق اُن کے چار بیٹے جن کی عمریں 12 اور 25 سال کے درمیان تھیں، اس حملے میں قتل کیے گئے جب کہ چچا زاد بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجوں سمیت 14 افراد ان کے خاندان کے اس حملے میں قتل ہوئے۔ رنڑا خان کے مطابق اُن کے بڑے بیٹے فضل وہاب راولپنڈی میں محنت مزدوری کرتے تھے اور سات مہینے پہلے اُن کی شادی ہوئی تھی جب کہ نعیم کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں اور عید کے ایک مہینے بعد اُن کی شادی تھی۔ مشتاق کی عمر پندرہ اور شہاب کی عمر تیرہ سال تھی۔ فضل وہاب اور نعیم دونوں راولپنڈی میں محنت مزدوری کرتے تھے اور عید کے لئے اپنے گھر واپس لوٹ آئے تھے۔ مشتاق اور شہاب زیادہ تر وقت ہمارے ساتھ گزارتے تھے۔
رنڑا خان کے مطابق اُن کے بچوں اور رشتہ داروں کے سروں کی قیمت صرف دس لاکھ روپے لگائی گئی اور میرے ساتھ چالیس لاکھ روپے کا وعدہ کیا گیا تھا جو پورے نہیں ملے۔ مختلف ناموں پر رقم سے کٹوتیاں کی گئیں۔ رنڑا خان کے مطابق ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ مرنے والوں کے لواحقین کو ایک ایک سرکاری نوکری دی جائے گی جب کہ اُن کے بچوں کی کفالت حکومت کرے گی مگر کوئی وعدہ بھی پورا نہیں ہوا اور ہمیں کھلے آسمان تلے چھوڑا گیا۔ رنڑا خان کہتے ہیں کہ پنجاب میں دہشتگردی میں مرنے والوں کو بھاری معاوضہ ملتا ہے جب کہ ہمارے صوبے میں یہ معاوضہ دس لاکھ روپے ہے۔ "آپ ہی بتائیے کہ چار بیٹوں کے مرنے کے عوض چالیس لاکھ روپے کیا ہیں اور میں اس بڑھاپے میں اپنے پوتوں اور چھوٹے بچوں کی کفالت کیسے کروں؟"
رنڑا خان کے مطابق دھماکے میں متاثرہ مسجد کو دوبارہ پاک فوج نے تعمیر کیا اور لوگوں کو کچھ حد تک معاوضے بھی ملے لیکن اُن 37 لوگوں کا کیا جو بغیر کسی گناہ کے لقمہ اجل بنے اور اپنی جوانی کے خواب لے کر اس دنیا سے رخصت ہوئے؟ انہوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔ مگر ان چار لاشوں کے دفن ہونے سے میں بھی اندر سے مر گیا اور چار بیٹوں کو بھول جانے کے لئے کسی معجزے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ کسی باپ کے بس کی بات نہیں۔
کالعدم جماعت الاحرار کی جانب سے اس وقت جاری کیے گئے ایک مراسلے میں کہا گیا تھا کہ امبار کی اس مسجد میں زیادہ تعداد امن کمیٹیوں کے رضاکاروں کی تھی اور اس حملے میں اُن کو نشانہ بنایا گیا جب کہ دوسری جانب مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ امن کمیٹی کے کچھ رضاکار مسجد کے کمرے میں نماز ادا کر رہے تھے جو اس دھماکے میں محفوظ رہے۔ گھبراہٹ اور جلدی میں خودکش حملہ آور نے برآمدے میں خودکو اُڑا لیا جہاں زیادہ تعداد نوجوانوں اور بچوں کی تھی۔
ساٹھ سالہ زاہدہ جو دس مرلے کے ایک کچے مکان میں رہائش پذیر ہے، تاحال اُس حادثے کو نہیں بھول پائیں جب ایک خودکش حملے میں اُن کا جواں سالہ بیٹا بصیر اللہ زندگی کی بازی ہار گیا۔ بصیر اللہ کی ماں کے مطابق بصیراللہ کے جانے کے بعد زندگی کے پانچ سال پانچ صدیوں جیسے تھے اور زندگی کے یہ سال بہت بھاری تھے۔ اس حادثے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ معلوم کا ایک دن تھا اور اُن کے بیس سالہ بیٹا بصیر اللہ صاف کپڑے پہن کر نماز جمعہ کی تیاری کر رہے تھے۔ اُس دن میں معمول سے زیادہ بصیراللہ کو دیکھ رہی تھی اور میرا دل کر رہا تھا کہ بار بار اُن کو دیکھوں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں اپنے بیٹے کا آخری دیدار کر رہی ہوں؟ بصیر اللہ کے جانے کے بعد میں بھی نماز کی تیاری کر رہی تھی کہ اس دوران ایک زوردار دھماکہ ہوا اور دھماکے کے ساتھ چیخوں کی آوازیں بھی گونجنے لگیں۔ میں اس وقت ننگے پاؤں باہر نکل آئی اور جیسے ہی باہر دیکھا تو مسجد شدید دھوئیں کی لپیٹ میں تھی۔ میں دوڑتی ہوئی مسجد کی طرف ننگے پاؤں بھاگ رہی تھی۔ جب مسجد کے قریب پہنچی تو لوگ لاشیں نکال رہے تھے۔ میں اپنے حواس کھو بیٹھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوا ہے مگر کچھ لمحے بعد میرے بڑے بیٹے کی گود میں بری طرح جھلسی ہوئی ایک لاش تھی جس کو میرے سامنے چارپائی پر ڈال دیا گیا۔
بصیر اللہ کی ماں کے مطابق میں نے اپنے بڑے بیٹے سے پوچھا کہ یہ کس کی لاش ہے۔ "یہ بصیر اللہ کی لاش ہے"، اس نے جواب دیا۔ میں نے انکار کیا۔ یہ بصیر اللہ کی لاش نہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ تمام لاشیں بری طرح جھلس چکی ہیں۔ یہ بصیر اللہ کی لاش ہی ہے۔ میں نے بعد میں اُن کے نیچے پہنے ہوئے بنیان سے اُن کی شناخت کی۔ بصیراللہ کی ماں کہتی ہے اس عید الضحیٰ پر بھی مجھ پر قیامت گزری اور یہ قیامت ہر روز اور ہر سال گزرتی ہے کیونکہ وہ میرے جگر کا ٹکڑا تھا جو مجھ سے چھین لیا گیا۔
بصیر اللہ کی ماں کے مطابق اُن کے ساتھ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ حملے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو سرکاری نوکریاں دی جائیں گی مگر میرے بیٹے کی لاش کے ساتھ ساتھ وہ وعدے بھی دفن ہوئے اور اس دن کے بعد کسی نے نہیں پوچھا کہ بصیراللہ کے والدین سمیت دیگر والدین کس حالت میں ہیں۔
کالعدم جماعت الاحرار کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ یہ دھماکہ اس کوشش کا بدلہ تھا جس میں اس علاقے کی امن کمیٹی کے رضاکاروں نے ہماری تنظیم کے مجاہدین کو قتل کیا تھا اور کچھ کو حکومت کے حوالے کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ مستقبل میں بھی امن کمیٹی کا حصہ بننے والے اور حکومت کو معاونت فراہم کرنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا۔
محنت مزدوری کرنے والےنوجوانوں نے شہروں سے واپسی کے بعد عید کے دنوں میں کرکٹ ٹیمیں بنائیں اور کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا۔ نماز جمعہ سے کچھ لمحے پہلے کرکٹ ٹیموں کے نوجوانوں نے میچ میں وقفہ کیا اور نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد روانہ ہوئے مگر بہت سارے کھلاڑی گراؤنڈ لوٹنے کے بجائے قبروں میں دفن ہوئے اور خودکش حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔
نورزادہ اس دردناک دن کا احوال بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹورنامنٹ کے میچز جاری تھے اور نماز جمعہ کا وقفہ تھا۔ میری ٹیم کے چار کھلاڑی سیدھا مسجد چلے گئے جب کہ میں گھر چلا گیا کہ اس دوران ایک زوردار دھماکہ ہوا اور مسجد کو دھوئیں اور گرد و غبار نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہم بھاگتے ہوئے مسجد پہنچے۔ نورزادہ کے مطابق کچھ لوگوں کے سر تن سے جدا ہو چکے تھے تو کچھ کے ہاتھ نہیں تھے۔ کچھ کے پاؤں نہیں تھے۔ یہ قیامت کا منظر تھا۔ ان کے مطابق اپنے دوستوں کو میں نے گود میں اُٹھایا۔ کچھ پہلے مر چکے تھے جب کہ کچھ نے میری گود میں اخری سانسیں لیں اور مجھے ایسے لگتا ہے کہ اُس دن سے میں بھی اعصابی طور پر مرچکا ہوں، بس سانس لے رہا ہوں۔ نورزادہ کے مطابق ٹورنامنٹ کے بارہ سے زیادہ کھلاڑی اس دھماکے میں قتل ہوئے جب کہ میری ٹیم کے پانچ کھلاڑی اس میں قتل ہوئے۔ ان میں قاری نوراللہ، زرولی ، محمد زیب، لقمان اور رسول خان شامل تھے۔ نورزادہ اپنی آنکھوں کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بہت دردناک دن تھا اور دوستوں کے جنازوں کو کندھا دینا ایک مشکل اور دردناک کام تھا کیونکہ گاؤں کے ہر طرف قبریں ہی قبریں تیار ہو رہی تھیں۔
ضلع مہمند کی ضلعی انتظامیہ ان الزامات کی تردید کرتی آ رہی ہے اور اس کے ایک افسر کے مطابق تمام شہدا کے لواحقین کو مکمل شہدا پیکج دیا گیا ہے، ان سے کسی قسم کی کٹوتی نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ نوکریاں صرف اُن لوگوں کو دی جاتی ہیں جو کسی حکومتی سروس کا حصہ ہوں اور دورانِ سروس چل بسے ہوں تو بعد میں اُن کے گھر کے کسی فرد کو ان کی جگہ نوکری پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ یہاں مرنے والے تمام افراد عام سویلین تھے، اس لئے اُن کو نوکریاں نہیں دی گئیں۔
پینتالیس سالہ دل آفروزہ کے لئے بھی 16 ستمبر 2016 کا دن ناقابل فراموش ہے۔ اس دن انہوں نے تین جوان بیٹوں کی لاشیں دفن کیں۔ دل آفروزہ کہتی ہیں کہ عید الاضحیٰ کا موقع ہے اور میں پھر آج درد سے مر رہی ہوں کیونکہ عید کا دن میرے تین جوان بیٹوں کی دردناک یادیں لے کر آتا ہے۔ دل آفروزہ کے تین بیٹے جن میں لقمان، سعد اور عرفان شامل تھے اور لقمان حافظ قران بھی تھے۔ دل آفروزہ اپنا درد بیان کر کے کہتی ہیں کہ میں روز اُن کی قبروں پر جاتی ہوں تاکہ اپنے درد کو کم کر سکوں اور وہاں جا کر اُن قبروں سے باتیں کرتی ہوں لیکن وہ مجھے آواز نہیں دیتے اور خاموش ہیں۔
دل آفروزہ اپنے آنسو صاف کر کے کہتی ہیں کہ جب رات کو چاند نکلتا ہے تو میں کھڑکی سے اُن کی قبروں کی طرف اشارہ کرتی ہوں اور کہتی ہوں کہ دیکھو وہاں لقمان سو رہا ہے، وہاں سعد سو رہا ہے اور ایک جگہ عرفان سو رہا ہے۔ دل آفروزہ کہتی ہے کہ صبح اُٹھتے ہی سب سے پہلے کھڑکی سے اُن کی قبروں کا نظارہ کرتی ہوں لیکن سکون نہیں ملتا اور دل سے ایک آہ نکلتی ہے کہ اللہ اُن ظالموں کے گھر بھی بچوں سے اس طرح خالی کر دے جنہوں نے ہمارے گھر بچوں سے خالی کیے، ہمارے ہنستے بستے گھر اُجاڑ دیے۔ کیونکہ اس گھر میں زندگی بھر ماتم کا سماں ہوگا۔ اس گھر سے تین جوان بچوں کے جنازے نکلے ہیں۔ اُن کی کمی زندگی بھر ہمارا سکون چھینتی رہے گی۔