ملتان ضمنی انتخابات: تحریک انصاف کی موروثی سیاست کے خلاف جنگ بے نقاب

ملتان ضمنی انتخابات: تحریک انصاف کی موروثی سیاست کے خلاف جنگ بے نقاب
کیا پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) نے خاندانی سیاست پر اپنے دیرینہ بیانیے کو تیاگ دیا ہے یا اسے اختیار حاصل ہے کہ جب چاہے دوسروں کو اس پر معتوب کرے اور جب چاہے خود کو اپنے ہی آدرشوں سے استثنا دے دے؟

سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ ان کی صاحبزادی مہر بانو قریشی 11 ستمبر کو ہونے والے این اے 157 کے ضمنی انتخابات کے لئے پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار ہوں گی۔

یہ نشست حالیہ پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں زین قریشی کے کامیاب ہونے کے بعد خالی ہوئی تھی۔ ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں اس بارے میں بات کرتے ہوئے مہر بانو نے کہا کہ وہ صرف پارٹی کی ووٹر نہیں بلکہ 2018 سے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کی مدد کر رہی ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے سسیکس یونیورسٹی سے سیاست اور سماجیات پڑھنے کے بعد صحافت میں قدم رکھا تھا۔

مہر بانو قریشی کو امیدوار کھڑا کیے جانے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ بہت سے لوگوں نے، اس بات کی درست طور پر نشاندہی کی کہ کس طرح چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اقربا پروری اور خاندانی سیاست کے خلاف عملی طور پر اپنا پورا سیاسی کریئر کھڑا کیا تھا جب کہ ان کے اہم ساتھی اس کے بالکل الٹ چلتے رہے۔

اس فیصلے پر پی ٹی آئی کے اپنے ایک کارکن وسیم عباس کی قیادت میں پارٹی ورکرز نے مقامی سطح پر احتجاج بھی کیا۔ ملتان میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں موجود افراد نے الزام لگایا کہ قریشی خاندان NA-157 کو اپنے لئے ہی وقف رکھنا چاہتا ہے۔

تاہم، یہ بات ذہن میں رہے کہ قریشی خاندان سیاست کے اس کھیل میں کسی بھی طرح تنہا نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے ہمیشہ ہی بطور جماعت 'الیکٹ ایبلز' کے انتخاب اور روایتی اقتدار پر قابض خاندانوں کو اہم عہدوں سے نوازتے ہوئے خاندانی سیاست کی حمایت کی ہے اور یہ دعویٰ بھی برقرار رکھا ہے کہ یہ جماعت اس طرز کی سیاست کے خلاف ہے۔

پنجاب کی نئی کابینہ میں وزارتی عہدے حاصل کرنے والوں کے پس منظر پر ایک سرسری نظر کافی ہے۔ چودھری ظہیر الدین خان پانچ بار ایم پی اے منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کے چچا سابق ممبر اسمبلی ہیں۔ ان کے دادا تقسیم ہند سے قبل پنجاب کی سیاست میں سرگرم تھے۔ ان کا بھائی بھی ایم پی اے ہے۔

علی افضل ساہی کے والد افضل خان ساہی چھ بار ایم پی اے منتخب ہوئے۔ چچا غلام رسول ساہی سابق ایم این اے ہیں۔ کزن ظفر ذوالقرنین سابق ایم پی اے ہیں۔ سسر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔

اور یہ صرف اصل فلم کا ایک ٹریلر ہے۔ یہ فہرست نہ ختم ہونے والی ہے۔ پرویز خٹک کے بھائی خیبر پختونخوا کے وزیر آبپاشی تھے۔ ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی سیاست میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں، پرویز خٹک کے کم از کم پانچ قریبی رشتہ دار قومی اور کے پی اسمبلی کے ممبر تھے۔ ان کے بیٹے ابراہیم، داماد عمران، بھاوج نفیسہ عنایت اللہ خٹک اور بھتیجی محترمہ ساجدہ بیگم ان میں شامل ہیں۔ دو دیگر رشتہ داروں نے نوشہرہ میں ضلعی اور تحصیل ناظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔

پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری عمر ایوب خان مسلم لیگی سیاستدان گوہر ایوب خان کے صاحبزادے ہیں۔ جہانگیر خان ترین کے بیٹے علی ترین نے بھی اپنے والد کی 2018 میں نااہلی کے بعد لودھراں سے ضمنی الیکشن لڑا تھا۔

رواں برس عمران کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی نے 'الیکٹ ایبل' لوٹوں کے خلاف ایک مہم چلائی جو ان کے مطابق پارٹی کو مشکل وقت میں چھوڑ گئے تھے۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ پارٹی صرف وفادار کارکنوں کو ٹکٹ دے گی۔ تاہم حال ہی میں ہونے والے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پارٹی نے تمام 20 نشستوں پر خاندانی سیاسی پس منظر رکھنے والے افراد کو میدان میں اتارا۔

پی ٹی آئی 'سٹیٹس کو' کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرتی ہے اور 2018 میں کرپشن کے خاتمے اور بنیادی اصلاحات لانے کے عزم کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ اس کے باوجود محقق حسن جاوید کے ایک ٹوئٹر تھریڈ میں لکھے گئے حقائق کے مطابق 2018 کے پنجاب اسمبلی میں اس کے اراکین کے سیاسی پس منظر کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے 77 فیصد خاندانی سیاست دان تھے۔

پی ٹی آئی کے قابل رشک ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے جب بات دہرے معیاروں کی ہو، تو پاکستان کی روایتی سیاست پر عمران خان کے خطبات کھوکھلے لگتے ہیں۔ اگرچہ اس نے شہری متوسط طبقے میں خاندانی سیاست کی ’لعنت‘ کے خلاف رائے عامہ بنائی ہے، لیکن ان کے سیاسی انتخاب ان کے مؤقف کی نفی کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے قریشی خاندان کی موروثی سیاست کا مزید مضبوط ہونا عمران خان کے بیانات اور ان کے اقدامات کے درمیان تضاد کو واضح کرتا ہے۔

سعد سعود نیا دور - دی فرائیڈے ٹائمز سٹاف کا حصہ ہیں۔