پاکستان میں آج کل ایک ڈرامہ بہت سے لوگوں کو چُبھ رہا ہے۔ کئی لوگوں کے منہ جھاگ نکل رہی ہے تو کئی گالیاں بک رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو حقیقت سے نظریں چرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بالکل اس کبوتر کی طرح جو شکاری کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور پھر اپنے آپ کو ہی کہتا ہے کہ آل اِز ویل۔
جی ہاں صحیح پہنچانا آپ نے۔ یہ ہے ڈراما ' قصہ مہر بانو کا'۔ ہم ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ کیا جانے والا یہ ڈراما جلد ہی اپنے اختتام تک پہنچ جائے گا۔ مگر ڈراما تو ختم ہو جائے گا لیکن یہ ایک اچھی بات کا آغاز پہلے ہی کر چکا ہے اور وہ ہے ہماری سوسائٹی کے ایک عام ظلم یعنی Marital Rape پر بات کرنے کی شروعات۔
یہی بات کی ہے اداکارہ ماورا حسین نے کہ قصہ مہر بانو کا وہ ڈراما ہے جو محبت کے نام پر خواتین کی بے عزتی کرنے پر بات کرنے کا آغاز ہے۔ ماورا حسین نے ڈرامے پر ہونے والی تمام تر تنقید کو لفٹ تک کرانا مناسب نہیں سمجھا۔ اصل میں اس ڈرامے کو اس کی کہانی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیوں کہ اس میں میریٹل ریپ جو دکھایا گیا ہے۔
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح شوہر اپنی بیوی کے احساسات کا خیال کیے بغیر اس سے ہر وقت رومانٹک رہنے کی امید رکھتا ہے۔ ویسے میریٹل ریپ دکھانے کی وجہ سے اس ڈرامے پر صرف تنقید ہی نہیں ہوئی بلکہ کچھ لوگوں نے اس کی خواب تعریف بھی کی ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی ماورا حسین کی تو انہوں نے انسٹا گرام پر لکھا کہ ''محبت اور نکاح کے نام پہ کیا جانے والا ظلم بھی ظلم ہی ہوتا ہے۔'' اصل میں میریٹل ریپ خواتین کے خلاف زمانہ قدیم سے ہونے والا شرمناک اور توہین آمیز جرم ہے۔ مگر آج بھی اسے بڑے پیمانے پر جرم مانا ہی نہیں جاتا۔ اور عام طور پر اس کام سے انکار پر عورت پر ٹَھک سے نافرمانی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
یہ مضحکہ خیز ہے۔ یہ 2022 ہے اور مراد جیسے مرد زندگی کے تمام شعبوں میں موجود ہیں۔ یہ لوگ ناصرف اپنی بیویوں کا ریپ کرتے ہیں بلکہ اور بری بات یہ ہے کہ مجال ہے جو اسے مانیں۔
اور تو اور یہ لوگ اس کا مذاق بھی اُڑاتے ہیں۔ محبت اور فرض کی آڑ میں پوری دنیا میں بے تحاشا عورتوں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے۔ ڈراما قصہ مہر بانو کا اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔
یہ رول پرفارم کرنا بہت مشکل تھا مگر جس طرح لوگوں نے اس کو پسند کیا اس پر ڈرامے کی تمام ٹیم بہت خوش ہے۔