عِلَم دینوں کا ملک اور ترکھانوں کا مُنڈا پھر بازی لے گیا

عِلَم دینوں کا ملک اور ترکھانوں کا مُنڈا پھر بازی لے گیا
ویسے تو مملکت اسلامیہ میں غیر مسلم ہونا بھی مار کر جلائے جانے کے 'قابلِ' جرم ہے، لیکن یہ ہماری کمزوری یا 'رواداری' کہ لیں کہ ہم ان 'دو چار' کو چار وناچار برداشت کر ہی لیتے ہیں۔ البتہ بات اگرغیر مصدقہ توہین مذہب یا توہین رسالت کی ہو، چاہے وہ کوئی محض بغیر ثبوت کے الزام ہو، یا صرف سٹیکر اور پوسٹر اتارنے کی ہو تو اس الزام لگنے والے کی فی الفور اور 'قرار واقعی' سزا ایک ایسا اٹل امر ہے، جس میں کوئی قانونی سقم اور ریاستی انتظام رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔

اس بات پرحیرت یا چُلو بھر پانی میں ڈوبنا نہیں چاہیے کہ اس معاملے پر باقاعدہ ایک قانون موجود ہے، جو توہین رسالت کے ملزم کو جرم ثابت ہونے پر سب سے بری سزا لاگو کرتا ہے، لیکن جب جنت کی لاٹری یوں بیٹھے بٹھائے اور منہ اٹھائے مل جائے، تو کون کافر (مطلب مسلمان) لاٹھی نہیں اٹھائے گا، تیلی نہیں جلائے گا، گوشت کی راکھ نہیں اُڑائے گا اور انصاف کو 'اپنے' ہاتھوں سے نہیں انجام دے گا۔ یہاں تو چھوٹی لاٹری کیلئے لوگ مرے جاتے ہیں تو اتنی بڑی لاٹری کو کوئی پاگل ہی ہوگا جو قانون کے ہاتھ میں دے کر 'گنوائے' گا۔

صدیوں سے مسلمان، ہندو، مسیحی اور دوسرے مذاہب کے پیروکار برصغیر میں ایک ساتھ اور ایک انتظام کے تحت رہتے رہے، لیکن کوئی ہلکی سی بھی روایات نہیں ملتی کہ ایک دوسرے کے عقائد پر حملہ ہوا ہو اور مذہبی آگ بھڑکی ہو۔

تعجب اور سوچنے کی بات ہے کہ انگریزوں کی 'مثالی' قانونی علمداری ہو، تو راج پال، نتھو رام اور علم دین جیسے واقعات سامنے آنا شروع ہو جائیں جو دونوں مذاہب کے درمیان تقسیم کو گہرا اور نفرت انگیز کرتے چلے جائیں۔

اگرچہ انگریز راج میں توہین شارع کے نام پر کوئی قانون موجود نہیں تھا، لیکن یہ حکومت کا ریاستی وانتظامی فرض تھا کہ وہ گستاخ پبلشر راج پال کی توہین مذہب ورسالت پرگرفت کرتے اور منافرت کو لگام ڈالتے لیکن انھوں نے "تقسیم کرو" کی اپنی 'نو آبادیاتی' پالیسی کے تحت اس کو اور شہہ دی، جس لمحاتی آزمائش کا شکار مسلمانوں کے بڑے لیڈرز بشمول علامہ اقبال بھی ہو گئے، اور کندھا دیتے ہوئے فرماتے گئے کہ ''ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا''، اس کے باوجود بقول علامہ خود اس دھرتی کا مسلمان صیاد کے پھندے میں بڑی آسانی سے آجاتا ہے۔

تاویل کا پھندا کوئی  صیاد  لگا دے
شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

یہی 'جدید' ترکھان اب فرحان یا دوسرے ناموں سے لکڑیوں کو کام میں لانے کے بجائے جہالت کے تحت 'خدائی' عدل سمجھتے ہوئے لکڑیوں سے لوگوں کو مارنے پر تلے ہیں۔ جس طرح رسول ﷺ کی تعلیمات کے برخلاف اخلاقی پستیوں کو چھوتے ہوئے عشقِ رسول کے نام پر کاٹ مارنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، اسی طرح حقیقت میں علم دین کی روایت کی پاسداری نہیں بلکہ اس کی تضحیک کر رہے ہوتے ہیں۔

غازی علم دین تو ایک سادہ سی شخصیت کا مالک تھا، جو انگریزوں کی چالبازی اور مجرمانہ غفلت کو سمجھ نہیں پایا۔ یہاں کا فرحان تو اس قدر 'عقل مند' ہے کہ بجائے خود کارروائی کے اس نے سب نئے ترکھانوں کو اپنا ہم نوا بنایا تاکہ 'ہجومی انصاف' نظر آئے۔

اسی مُنڈے کو باہر جانے کا موقح ملے تو وہاں کھوتے کی طرح کام کرے گا اور پیسے گھر بھیجے گا۔ جب اسے کوئی چارلی ایبڈو یا میکرون قتل عمد کیلئے نظر نہیں آئے گا۔ یہ کام تو آخر جنت ارضی کے ٹکڑے پر ہی ہو سکتے ہیں ناں!

اصل بات بدترین معاشرتی تنزلی اور سیاسی، سماجی پستی ہے، جس کا شکار ہم آج ہو چکے ہیں۔ کوئی کام کرنے کا نہیں ہوتا، لیکن لوگ 'چوہڑوں' کی تاک میں ہوتے ہیں، مبادا صفائی کے نام پر کوئی توہین نہ کر دیں، کوئی ان کی ظاہری محبت کے پوسٹر، سٹیکر نہ اتار دے۔ سٹیکر اتارنا تو دور کی بات، اب تو کان پھاڑ محافل میں کسی کو آواز کم کرنے کا بولنا بھی توہین رسالت کے زمرے میں آ سکتا ہے اور فوری اور سستا انصاف بروئے کارآ سکتا ہے۔ جیسے اب اس غیر ملکی کو بھی چوہڑا سمجھتے ہوئے انھوں نے نہیں چھوڑا اور ایسا 'بے باک' انصاف کیا کہ یہ بھی نہ سوچا کہ یہ لوگ ہندوؤں کی طرح مردے کو جلاتے نہیں ہیں۔

اب عالمی تضحیک اور دنیا میں سفاکیت کا ٹھپہ لگنے کے بعد احبابِ اختیار اور لیڈرز کے مذمتی بیانات آ رہے ہیں۔ واہ جی واہ! وہ تنظیم جس نے عشق کے نام پر اس ذہنیت کو پہلی بار گلی کوچوں میں اب باقاعدہ منظم کر لیا ہے۔ حکومتی لوگ جا کر ان سے گلے ملتے ہیں، ریاستی ادارہ دھرنے میں چیک تقسیم کرتا ہے، مارے جانے والے پولیس اہلکاروں کی قبروں پر مٹی 'پا' دی جاتی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں 'نونی' بنی ہوتی ہیں۔ دینی اور سیاسی جماعتوں کے لیڈرز اسلام کی 'حمایت' میں ان سے یکجہتی کے بیانات دیتے ہیں، اور اب اپنی انہی واسکٹوں، وردیوں، پگڑیوں اور 'ٹیڑھی' ٹوپیوں سے اندوہناک واقعے کی مذمت اور شرمناک قرار ہوتے ہیں۔

شرم تو آپ کو آنی چاہیے، جب آپ خود سانپ کو پالتے، اس کو گذرنےاور پھر لکیر پیٹنے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ توہین رسالت تو اصل میں خادم رضوی اور اس کے پیروکاروں پر لگنی چاہیے، جو رحمت العالمین کے نام پر دہشت اور فساد پھیلا کر رسولﷺ اور ان کی تعلیمات کی سرِعام توہین کر رہے ہیں۔

مصنف منصور ریاض ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں