ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے

ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے

نجی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال 2022 میں خودکشی کرنے والے افراد میں سے اکثریت یعنی 82 فی صد کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ 58 فی صد خواتین نے اپنی جان لی جن میں 55 فی صد شادی شدہ تھیں۔ 28 فیصد متاثرہ افراد نے خود کو گولی سے اڑا دیا جن میں85 فی صد شرح لڑکوں کی ہے۔ مرنے والوں میں سے باقی نے زہر کھا کر یا پھر گلے میں پھندا ڈال کر خود کو ہلاک کیا۔ آخر یہ خیالات کیسے جنم لیتے ہیں؟ کوئی کیسے اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے سکتا ہے؟ کیسے کوئی اتنا کمزور پڑ سکتا ہے؟ وہ کون سی کیفیت ہے جو انسان کو اس نہج پہ لے آتی ہے؟ اس کیفیت اور ذہنی مرض کو ڈپریشن کہا جاتا ہے۔

یہ ڈیپریشن کیا ہوتا ہے؟ ڈیپریشن ایک ذہنی کیفیّت کا نام ہے, خود کو بے بس اور کچھ بھی نہ کرسکنے کے قابل سمجھنا ڈیپریشن کی نشانیاں ہیں۔ ذہن کی تادیر برقرار رہنے والی ایسی کیفیّت، ہماری صحت میں کئی طرح کی خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔ اگرچہ یہ بات کئی لوگ تسلیم نہیں کرتے، لیکن ڈپریشن بھی ایک باقاعدہ بیماری ہے۔ اس کی دیگر علامات میں ٹھیک سے نیند نہ آنا، بھوک نہ لگنا یا وزن میں کمی، فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور توجہ و یاداشت کی کمی جیسے مسائل بھی شامل ہیں یہاں تک کہ اس بیماری کا شکار لوگ اپنی جان لینے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنے لگتے ہیں۔ جذباتی پن، زندگی میں دل چسپی کھو دینا اور مزاج میں اداسی بھی ڈپریشن کی علامت ہے۔ زندگی میں ایسی سرگرمیاں جو پہلے پر لطف اور دل کش لگتی تھیں، ان میں کشش کا ختم ہونا، اس کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کے مریضوں کے جذباتی پن میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ امید کھونے لگتے ہیں۔ اور اس سب کا اثر اگلے دن کی سرگرمیوں پر بھی مرتب ہوتا ہے۔

آپ کچھ بھی کرنے کی صلاحیت سے مرحوم ہوجاتے ہیں۔ جس کا اثر نا صرف آپ کی نجی زندگی پر پڑتا ہے بلکہ آپ کا کام، آپ کی پروفیشنل اور سوشل لائف بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ آپ کے دوست احباب اور یہاں تک کے گھروالے بھی آپ کی اس کیفیت اور احساس کو صحیح طرح سے نہیں سمجھ پاتے اور پھر احساس محرومی اور بھی بڑھ جاتا ہے، اور پھر یہی محرومی آپ کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈنے کی نہ تھی
مجھ میں کھویا رہا خدا میرا

سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آیا اس کیفیت کے پیدا ہونے کے ذمہ دار کون ہیں؟ ہمارا معاشرہ؟ ہماری فیملی؟ ہمارے دوست؟ یا ہم خود؟ مختلف کیسز میں مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ ضرورت سے ذیادہ کسی سے دوسرے سے توقعات لگانا بھی آپ کو اس مرض کا شکار بنا دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے نے یکسانیت اور انسانیت کے دہرے معیار، ایک دوسرے پر فوقیت کی جنگ نے بھی احساس محرومیت پیدا کر رکھی ہے۔ معاشی تنگدستی، بیروزگاری، بےحسی اور حسد جیسے عناصر بھی اس جنگ میں آپ کے بہت بڑے دشمن ہیں۔

لیکن اگر مسئلہ صرف اپنی ذات اور قریبی رشتوں سے پیدا ہورہا ہو تو ہم اسے مصلحتاً بات چیت سے بھی حل کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی رشتہ ہو اس میں سپیس دیں، سانسن لینے کی گنجائش رکھیں، اسے اس قدر قیدوبند میں نا رکھیں کی وہ گھٹ گھٹ کر دم ہی توڑ دے۔ اس کیلئے بھی آپ کے پاس وہ ظرف، حوصلہ اور صبر ہونا ضروری ہے جس سے کہ آپ اس کیفیت میں جکڑے فرد کی بات کو سن سکیں اور سمجھ سکیں، نا کہ سن کر اس کے احساسات کا مذاق اڑائیں، اس کی تذلیل کریں اور اس کو پاگل ہونے، ذہنی مریض ہونے کا طعنہ مار کر مزید اس کو ڈپریشن کا شکار بنائیں۔ اگرچہ ہم باتوں کے ذریعے (یعنی سائیکو تھراپی) علاج میں ڈپریشن کے مریضوں کو اپنے احساسات اور دل کی باتیں کسی اپنے دوست یا بااعتماد فرد کے ساتھ ڈسکس کرنے سے ڈپریشن میں کمی ہو سکتی ہے، جبکہ بعض حالات میں ماہر نفسیات سے مشورہ کرنا اور اس سے اپنے دل کی بات شیئر کرنا زیادہ آسان اور فائدہ مند ہوتا ہے، کیونکہ وہ اس کے بارے میں عام شخص سے بہتر علم رکھتے ہیں اور بہتر طریقے سے اس کا علاج تشخیص کر سکتےہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈپریشن کوئی عام یہ معمولی مرض نہیں یہ ذہنی سکون کے ساتھ ساتھ آپ کی صحت کو مکمل طور پر تباہ کردتیی ہے۔ اگر آپ ایک بہترین اور خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی ذات کو اہمیت دیں، اپنی ذات سے راضی ہوجائیں، اپنے آپ کو ووقت دیں، زندگی کے مقاصد کو جانیں، لاحاصل کی جنگ سے باہر نکلیں، کسی سے بھی غیرضروری توقعات نہ رکھیں، ضرورت سے ذیادہ نا سوچیں،ہر کسی کو خوش رکھنے کی ناکام کوشش چھوڑ دیں، خود کو خوش رکھیں، خود کو اور خود سے جڑے تمام رشتوں کو سپیس دیں، کھل کر سانسن لینے اور جینے کی کوشش کریں، مثبت سوچیں، کچھ غلط بھی ہو جائے تو اس میں بھی اس کی مصلحت ڈھونڈیں، سب سے بڑھ کر اللہ توکل رکھیں، اپنا ہر معاملہ اس کی ذات پر چھوڑ دیں۔ خود سے ہر ممکن اور مثبت کوشش کریں لیکن اس کا فیصلہ اس ذات پر چھوڑ دیں۔ انسانوں کی بھیڑ میں خود کو اکیلا محسوس کریں تو اللہ کی ذات سے رجوع کریں وہ آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔

کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے