واشنگٹن پوسٹ: بھارتی میڈیا نے بی جے پی کی پراپیگینڈا مشین کے طور پر کام کیا

واشنگٹن پوسٹ: بھارتی میڈیا نے بی جے پی کی پراپیگینڈا مشین کے طور پر کام کیا
یہ مضمون امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جس کے اہم ترین نکات پاکستانی ناظرین کے لئے ترجمہ کر کے پیش کیے جا رہے ہیں

پلوامہ حملے کے بعد جس میں 40 بھارتی سپاہی ہلاک ہوئے تھے بھارتی فضائیہ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان میں بالاکوٹ کے مقام پر جیش محمد کے ایک ٹریننگ کیمپ کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ وی کے گوکھالے نے دعویٰ کیا کہ ہم نے دہشت گردوں کے سب سے بڑے کیمپ پر حملہ کیا اور بہت بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ حکومت کی جانب سے بنا کسی تصدیق کے بھارتی میڈیا نے یہ خبر نشر کر دی کہ انہیں حکومتی ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ اس آپریشن میں 300 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ لیکن پاکستانی حکام نے اس دعوے کو جھٹلا دیا اور بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ جس جگہ بھارت نے حملہ کیا وہ درختوں سے بھرا خالی علاقہ تھا۔



بھارتی میڈیا کی جھوٹی معلومات عوام تک پہنچانے کے ضمن میں یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ہماری بھارتی میڈیا کی پلوامہ حملے کے بارے میں رپورٹنگ پر تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ زیادہ تر رپورٹیں جھوٹ، تعصب اور غلط بیانات پر مبنی تھیں۔ بڑے بڑے خبروں کے ادارے مثلاً انڈیا ٹوڈے، این ڈی ٹی وی، نیوز 18، دا انڈین ایکسپریس، فرسٹ پوسٹ، ممبئی مرر، اے این آئی اور دیگر اداروں نے اپنی معلومات کا ماخذ "حکومتی ذرائع"، " فارینسک ماہرین، "پولیس افسران" اور "تفتیشی افسران"  کو قرار دیا۔ اس ضمن میں کسی قسم کی آزادانہ تحقیقات نہیں کی گئیں اور انٹیلیجنس کی ناکامی سے متعلق کئی سوالات کو بنا جوابات حاصل کیے چھوڑ دیا گیا۔

ہمیں تحقیق سے پتہ چلا کہ بھارتی عوام کو پلوامہ حملے اور اس کے بعد کی صورتحال کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ بالاکوٹ میں اموات کی تعداد کی کنفیوژن کے علاوہ خبر رساں اداروں نے سرکاری معلومات کے بنا ہی بتانا شروع کر دیا کہ حملے میں 25 سے 300 کلو گرام آر ڈی ایکس استعمال کیا گیا۔ اکثر خبروں میں پلوامہ حملے کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر مختلف لوگوں کو دکھایا گیا اور اس بارے میں کسی قابل اعتماد ذرائع سے معلومات نہیں لی گئیں۔ اس حملے کے دو ہفتوں بعد ہمارے تجزیے سے معلوم ہوا کہ کسی بھی خبر رساں ویب سائٹ نے اپنی خبروں میں موجود غلط معلومات کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی اور ان غلط حقائق کو پبلک ریکارڈ کیلئے چھوڑ دیا گیا۔



بلکہ بھارتی میڈیا نے سرکاری پراپیگینڈے کو مشتہر کرنے کا کام انجام دیا جس نے دونوں ایٹمی قوتوں کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ ٹی وی نیوز رومز کو فوجی کنٹرول روم کی مانند سجایا گیا اور اینکرز فوجی ٹیکنالوجی اور حکمت عملی پر بات کرتے نظر آئے۔ کچھ جنگی لباس پہن کر بھی سٹوڈیوز میں بیٹھے اور کئی صحافیوں نے ٹویٹر پر بھارتی فوج کی تائید میں ٹویٹس کرنے شروع کر دیے۔ میڈیا کے اس عمل کے باعث دو سیاسی رجحانات نے جنم لیا۔ پہلا کشمیر میں جاری بغاوت کچلنے کی لڑائی میں شدت پیدا ہوئی جس کے باعث سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور متعدد کشمیری شہری لڑائی میں ہلاک کر دیے گئے۔ اس کے باعث کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی طویل جدوجہد کو خاموش کروا دیا گیا۔

دوسرا رجحان یہ تھا کہ چونکہ میڈیا اس بحران پر حکومتی مؤقف کو مشتہر کرنے میں مصروف تھا اس لئے دیگر سیاسی مسائل عوام کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ مثال کے طور پر رافیل طیاروں کی خرید میں بھارتی حکومت پر کرپشن کے الزامات اور لاکھوں جنگلات میں رہنے والے افراد کو ان کے علاقوں سے نقل مکانی کا حکم (جو بعد میں روک دیا گیا) جیسے کئی مسائل اس دوران میڈیا کی نگاہوں سے اوجھل رہے۔ میڈیا کا ایسے نظریات کو مشتہر کرنا جو تشدد کا پرچار کرتے ہیں اور جن میں دنگے اور فساد شامل ہیں، پلوامہ حملے کے بعد اس کی کارکردگی پر سوال کھڑا کرتے ہیں کہ کیا بھارتی میڈیا صحافت کر رہا ہے یا پھر ہندو بنیاد پرست بیانیوں کی تشہیر کے کام میں مصروف ہے؟