بطور قوم ہم ایک قومی مخمصے میں مبتلا ہیں کہ دنیا میں ہمارے جیسا کوئی نہیں ہے، سب ہم سے ڈرتے ہیں اور ہم سے حسد میں مبتلا ہیں۔ اس لیے آئے روز ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ سوچ ہمارے ہر شعبہ میں سرایت کر چکی ہے۔
حالیہ ایشیا کپ شروع ہونے سے پہلے بھی قومی مخمصے کا شکار قوم نے سماجی رابطے کے ذرائع پر نقارہ بجانا شروع کر دیا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم دنیا کی نمبر ون ٹیم بن چکی ہے۔ آئی سی سی کی رینکنگ اس کی گواہ ہے ( یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہ ریننگ ہر ہفتے بدلتی ہے) اور پاکستان کا پیس اٹیک دنیا کا بہترین پیس اٹیک ہے۔ شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ کی صورت میں ہمیں وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر مل گئے ہیں۔ یہ طفلانہ سوچ ہے جو صرف سوشل میڈیا کے دانشور ہی اس بے بنیاد بات پر بھونپو بن سکتے ہیں۔
جیسے روم شہر ایک روز میں تعمیر نہیں ہوا تھا اسی طرح وسیم اکرم اور وقار یونس ہر پانچ سال بعد پیدا نہیں ہو سکتے۔ وسیم اکرم ٹیسٹ کرکٹ میں 414 اور ون ڈے میں 502، وقار یونس ٹیسٹ کرکٹ میں 373 اور ون ڈے میں 416 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں جبکہ شاہین شاہ آفریدی کی ابھی تک ون ڈے اور ٹیسٹ میچوں میں 100، 100 وکٹیں ہیں اور حارث رؤف نے گنتی کے دو اور نسیم شاہ نے 10 ٹیسٹ کھیلے ہیں۔ کیا ان کی حیثیت ہے کہ ان کو وقار یونس اور وسیم اکرم کے مدمقابل لایا جا سکے۔ زیادہ سے زیادہ یہ شعیب اختر کی ٹیسٹ اور ون ڈے وکٹوں کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں جو ٹیسٹ میں 178 اور ون ڈے میں 260 ہیں۔ لہٰذا یہ ایک فضول بحث ہے۔
پھر سوشل میڈیا پر جے شاہ کے حوالے سے شور وغوغا مچایا گیا کہ وہ پاکستان سے ڈرتا ہے اس لیے وہ متحدہ عرب امارات میں ایشیا کپ نہیں کرا رہا اور سری لنکا کے بارش زدہ شہروں میں ایشیا کپ کرا رہا ہے۔ لو جی اب تو ایشیا کپ ختم ہو چکا ہے اور پورے ٹورنامنٹ میں صرف ایک میچ پاکستان اور بھارت کا ادھورا رہا۔ ایک میچ ہوا جس میں بھارت نے پاکستان کو بہت بڑے مارجن سے ہرایا اور سیمی فائنل سمجھے جانے والے میچ میں سری لنکا نے پاکستان کو ہرا کر ایشیا کپ سے باہر کر دیا۔ کہاں ہم یہ کہہ رہے تھے کہ بھارت کی ٹیم ہم سے ڈرتی ہے اور کہاں ہم سری لنکا سے بھی ہار گئے۔
یاد رہے پچھلے سال بھی سری لنکا نے ہمیں اوپر نیچے دو میچوں میں ہرا کر ایشیا کپ جیتا تھا۔ رہی بات جے شاہ کی جو اس وقت ایشیئن کرکٹ کونسل کے صدر ہیں اور بھارت سے ہیں۔ جب سابق چیئرمین کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی نے سری لنکا میں ایشیا کپ کرانے کی حامی بھر لی تھی تو اس کے بعد یہ بحث ہی فضول ہے کہ ایشیا کپ متحدہ عرب امارات میں ہونا چاہئیے تھا۔ میرے خیال میں اس بات میں نجم سیٹھی کا بھی قصور ہے۔ چونکہ اب وہ چیئرمین پی سی بی نہیں رہے اس لیے انہوں نے جان بوجھ کر ٹویٹ کر کے اس بات کو بڑھاوا دیا۔
اب بابر اعظم کی بات کرتے ہیں۔ وہ ایک بہترین ورلڈ کلاس بلے باز ہے مگر ایک برا کپتان ہے۔ دروان میچ قوت فیصلہ سازی سے عاری قومی مفاد کے بحائے دوستوں کو پروموٹ کرتا ہے۔ اس وقت قومی ون ڈے ٹیم میں فخر زمان، محمد نواز، فہیم اشرف، امام الحق، شاداب خان، محمد حارث اور وسیم جونیئر کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ صرف بابر اعظم کی وجہ سے کھیل رہے ہیں۔ ورلڈ کپ کے لیے شان مسعود، سعود شکیل، ابرار احمد، عماد وسیم، سرفراز احمد، شاہ نواز دھانی یا محمد حسنین کو ہونا چاہئیے۔ اگر سرفراز کو نہیں رکھنا تو رضوان کے ساتھ متبادل وکٹ کیپر کے طور پر اعظم خان کو رکھیں۔ بابر اعظم جب سے کپتان بنے ہیں دو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور دو ایشیا کپ مقابلوں میں صرف اپنے دوستوں کو ہی ٹیم میں رکھ رہے ہیں۔ اگر ٹیسٹ کرکٹ میں سرفراز احمد، سعود شکیل اور ابرام احمد نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے تو اس میں کپتان بابر اعظم کا کوئی کمال نہیں ہے۔ وہ صرف سلمان علی آغا کو رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف اور صرف دوستوں کو رام کرنا اہم ہے۔
ماضی میں جس طرح رمیز راجہ اور نجم سیٹھی نے بابر اعظم کو سر پر چڑھا لیا تھا آج اس کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق کو وہ کردار ادا کرنا چاہئیے جیسا ماضی میں وہ بطور بلے باز ادا کرتے تھے۔ اپنے بھتیجے کی فکر چھوڑ دیں۔ آپ ایک گریٹ بیٹر تھے۔ ورلڈ کپ کے لئے ایسی ٹیم منتخب کریں کہ لوگ آپ کو یاد رکھیں۔