اس نے سری لنکا کے خلاف اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری بنائی۔ پھر اسے ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا۔ وہ یہاں نہیں رکا بلکہ مسلسل 11 سال تک ڈومیسٹک کرکٹ میں سکور کرتا رہا اور اربابِ اختیار کو شرمسار کرتا رہا۔ پھر کم بیک پر مسلسل 4 سنچریاں سکور کیں۔ اب 4 ٹیسٹ میچوں میں سکور نہ کرنے پر پھر ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا۔ یہ اسد شفیق ہیں جنہیں ٹیم سے نکال دیا گیا جبکہ مضبوط ڈومیسائل والے کرکٹر ناکام ہونے کے باوجود ٹیم میں موجود رہتے ہیں۔
اسد شفیق کے بعد کراچی کے ایک اور باصلاحیت بلے باز فواد عالم کو بھی ٹیم سے باہر کر دیا گیا کیونکہ ان کی لابنگ بھی ان کے ڈومیسائل کی طرح کمزور ہے۔ ان کے ریکارڈ پر ایک نظر ڈالیں۔ 18 ٹیسٹ میچوں میں 986 رنز 5 سنچریاں 2 نصف سنچریاں اور 41 کی اوسط جبکہ 38 ون ڈے میچوں میں 966 رنز 40 کی اوسط ایک سنچری اور 6 نصفِ سنچریاں۔ اگر یہ اعدادوشمار بھی آپ کو متاثر نہیں کر رہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے پاکستانی کرکٹ کا۔
اب ایک نظر پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ہونے والی ٹیسٹ سیریز کے باقی کھلاڑیوں پر ڈال لیں۔ کہا جاتا ہے کہ محمد علی جو فاسٹ باؤلر ہیں، ان کو ڈومیسٹک کرکٹ میں دو سیزن میں اچھی کارکردگی کے باعث منتخب کیا گیا ہے تو میرا سوال واٹس ایپ چیف سلیکٹر محمد وسیم سے یہ ہے کہ اس کو میر حمزہ کیوں نظر نہیں آتا جو مسلسل پچھلے 6 سالوں سے بہترین فاسٹ باؤلر کے طور پر ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کر رہا ہے۔ جو اب تک ساڑھے 3 سو سے زائد وکٹیں لے چکا ہے، اس کا کیا قصور ہے۔ اگر میرٹ ہے تو میر حمزہ اس پر پورا کیوں نہیں اترتا۔
آپ نے ابرار احمد کو اس لئے منتخب کیا ہے کہ وہ ایک مسٹری سپنر کے طور پر اپنا آپ منوانے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کپتان اور نائب کپتان کے پاس کوئی متبادل بھی نہیں ہے ورنہ اس کے ساتھ بھی وہی ہونا تھا جو نعمان علی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ نعمان علی نے جب سے ٹیسٹ ڈیبیو کیا ہے اب تک 12 ٹیسٹ میچوں میں تین مرتبہ 5 وکٹیں لے چکا ہے مگر آپ نے محمد نواز کو جو کپتان کا دوست ہے، ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے ٹیموں کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ ٹیم میں بھی رکھ لیا ہے تاکہ نعمان علی کو دباؤ میں رکھا جائے۔ رمیز راجہ! آپ کے میرٹ پر چار حرف بھیجنے کو دل کرتا ہے۔
سرفراز احمد کی شکل کرکٹ بورڈ کے اربابِ اختیار کو پسند نہیں۔ وہ اپنے زور بازو پر ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کر کے واپس آیا۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے محمد رضوان کو بطور بلے باز اور سرفراز احمد کو بطور وکٹ کیپر شامل کریں تاکہ مڈل آرڈر مضبوط ہو۔
آخر میں پاکستان اور برطانیہ کے درمیان کھیلے گئے تینوں فارمیٹس کے اعدادوشمار کے مطابق دونوں ٹیموں نے اب تک 86 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں برطانیہ نے 26 جبکہ پاکستان نے 21 میچوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ون ڈے میں 91 میچوں میں سے پاکستان نے 32 جبکہ برطانیہ نے 56 میچوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں 29 میچوں میں سے پاکستان نے 9 جبکہ برطانیہ نے 18 میچوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔
تینوں فارمیٹس کے اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ کو پاکستان پر فوقیت حاصل ہے۔ اب یہ سیریز جیتنے کے لئے پی سی بی کو چاہئیے کہ سپن وکٹیں بنائے تاکہ مسٹری باؤلر ابرار احمد اور نعمان علی کے ذریعے دباؤ ڈالا جا سکے۔ اگر فاسٹ وکٹیں بنانے کی کوشش کی گئی تو برطانیہ کے بہت ہی تجربہ کار باؤلرز جمی اینڈریسن اور سٹیورٹ براڈ پاکستان کے بلے بازوں کو مشکل میں ڈال دیں گے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔