کیا سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے سفارت کاروں کو چوک میں کھڑا کرنا ضروری تھا؟

کیا سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے سفارت کاروں کو چوک میں کھڑا کرنا ضروری تھا؟
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز مختلف ممالک میں تعینات پاکستانی سفیروں سے ویڈیو لنک کے زریعے خطاب کیا جس کو براہ راست نشر کیا گیا . اس خطاب میں وزیر اعظم نے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے واضح کیا کہ سفارتخانے جس طرح چلائے جا رہے ہيں وہ اس طرح نہيں چل سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس قسم کا نظام برطانوی سامراج کے دور میں تو چل سکتا ہے لیکن آج کے پاکستان میں یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے۔ وزیر اعظم نے سیٹیزن پورٹل پر درج شکایت کا  پڑھ کر سنائیں اور واضح کیا کہ پاکستان کے سفارت خانوں کا رویہ اپنے شہریوں کے ساتھ مناسب نہیں ۔ انھوں نے پڑوسی ملک ہندوستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ  ان کے سفارت خانے پاکستان کی نسبت زیادہ متحرک ہے۔

وزیر اعظم نے سعودی عرب میں تعینات پاکستانی سفیر کو عملے کے چھ لوگوں سمیت واپس پاکستان بلالیا اور ان کی جگہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) بلال اکبر کو وہاں تعینات کیا گیا ہے۔  وزیر اعظم کے اس بیان کے بعد وزارت خارجہ سے خبریں آرہی ہے کہ اسکے بعد ایک ہنگامہ ہے اور نہ صرف وزارت خارجہ میں لوگ احتجاج کررہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ بیرونی ملک  میں تعینات پاکستانی سفارت خانوں کے سفیر اور دیگر عملہ بھی وزیر اعظم کے بیان پر مشتعل ہے ۔وزارت خارجہ کے ایک اہم عہدیدار کے مطابق وزیر خارجہ صبح سے وزارت میں موجود ہیں اور انہوں نے ٹیلیفون کالز سمیت اہم آن لائن میٹینگز کی ہیں اور وزیر اعظم کے بیان کے بعد پیش آنے والے صورتحال کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

وزیر اعظم کے اس بیان کے بعد اگر ایک طرف سمندر پار پاکستانی اس کا خیر مقدم کررہے ہیں تو دوسری جانب  سفارتی حلقوں اور سیاست دانوں کی جانب سے وزیر اعظم  پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے اور اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ بیان سمجھا جارہا ہے۔

لیکن وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اتنا سخت اور دو ٹوک جواب سامنے کیوں آیا  اور انھوں نے جارہانہ انداز کیوں اپنایا؟ دفتر خارجہ اور بین القوامی تعلقات پر نظر رکھنے والے ایکسپریس نیوز سے منسلک سینئیر صحافی اور اینکر پرسن کامران یوسف نے نیا دور میڈیا کو بتایا  کہ وزیر اعظم کی جانب سے جو بیان سامنے آیا اُن کی بنیادی وجہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی شہریوں کی جانب سے  سفارت خانے کے  خلاف شکایات کے امبار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں مقیم سمندر پار پاکستانی مسلسل سعودی عرب میں قائم پاکستانی سفارت خانے کے خلاف شکایت کررہے ہیں  جن کی وجہ سے انکوائری کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں۔  کامران یوسف سمجھتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی وزیر اعظم اور حکمران جماعت   کا  اثاثہ ہے اس لئے اُن کو خوش کرنے کے لئے وزیر اعظم نے سرعام تنقید کی۔

لیکن کیا بیرون ملک میں قائم پاکستانی سفارت خانے اتنے غیر ذمہ دار ہیں کہ وہ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل  کو ترجیح نہیں دیتے؟

یار محمد کا تعلق راولپنڈی اسلام آباد سے ہے اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے جاپان میں کاروبار سے منسلک ہیں ، ان کا ماننا ہے کہ پاکستانی سفارتخانہ جاپان میں بہت اچھے طریقے سے سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل حل کررہا ہے لیکن یہاں سارا مسئلہ وزیراعظم شکایت سیل (سیٹیزن پورٹل) نے بنایا ہے اگر کسی کا کوئی غیر قانونی کام روک جائے یا سفارت خانہ  کسی کمی کی وجہ سے کام کرنے سے انکار کریں تو پھر اگلے ہی لمحے وہ شکایت وزیر اعظم شکایت سیل پر درج کرتا ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ ہر جگہ کمی  اور مسائل ہوتے ہیں لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ سفارت خانہ کوئی کام نہیں کرتا تو یہ نا انصافی ہوگی، جیسے ایک حقیقت ہے کہ جاپان میں قائم پاکستانی سفارت خانے میں لوگ فون نہیں سنتے جن کی وجہ سے چھوٹے سے کام کے لئے بھی سفارت خانے جانا پڑتا ہے ۔

کامران یوسف کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے کی گئی کچھ تنقید جائز ہے لیکن تمام ناکامیوں کا بوجھ دفتر خارجہ پر ڈالنا زیادتی ہے کیونکہ بہت سارے کیسز میں دفتر خارجہ کا کام صرف ایک ڈاکیئے کا ہوتا ہے اور  اس میں دوسرے محکموں کی ذمہ داری بھی بنتی ہے جو وہ پوری نہیں کرتے۔

جیو نیوز سے منسلک تحقیقاتی صحافی زاہد گشکوری کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں سمندر پار پاکستانیوں نے سیٹیزن پورٹل پر اپنے سفارت خانوں کے خلاف شکایت درج کی ہیں لیکن ان کی کوئی سنوائی نہیں ہورہی ہے اور نہ ان کے مسائل کو حل کیا جارہاہے۔ وہ کہتے ہیں سب سے زیادہ شکایت متحدہ عرب عمارات، سعودی عرب، عراق، چائنہ  اور بیلجیم میں قائم پاکستانیوں نے درج کی ہیں۔

سائل کا تعلق پاکستان کے ضلع صوابی سے ہے اور انہوں نے صوابی یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد متحدہ عرب عمارات کا رخ کیا جہاں آج کل وہ ایک ڈیلیوری کمپنی  میں کام کررہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جدیدیت میں دنیا بہت آگے نکل گئی ہے لیکن یہاں پاکستانی سفارت خانے آج بھی لوگوں کو جانوروں کی طرح قطاروں میں کھڑا کرتے ہیں ۔ انھوں نے مزید کہا کہ سفارت خانوں کی جانب سے قطاروں میں کھڑا کرنا اور ہر کام دیر سے کرنے کی وجہ سے پاکستانیوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے پاسپورٹ کی مدت ختم ہوئی تو میں نے پاکستانی سفارت خانے میں پاسپورٹ جمع کروایا کہ مجھے نیا پاسپورٹ جاری کیا جائے مگر جب مطلوبہ مدت میں اس پاسپورٹ کی تجدید نہیں ہوئی اور میں بار بار سفارت خانے  گیا کہ مجھے مسائل کا سامنا ہے مگر  ان کا موقف یہ تھا کہ ہم نے اپنی زمہ داری وقت پر پوری کی ہے لیکن اسلام آباد سے کام رکا ہوا ہے۔ سائل کہتے ہیں اب یہ نہیں معلوم کہ مسئلہ سفارت خانے کا ہے یا پاکستان میں قائم متعلقہ اداروں کا؟

وزیر اعظم کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے سابقہ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ  وزیر اعظم کی جانب سے جاری بیان پر دکھ ہوا کیونکہ دور دور تک نوآبادیاتی ذہن کا کسی پاکستانی سفارت خان میں موجود نہیں۔ انہوں  نے مزید کہا کہ بیرونی ملک مقیم سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل حل کرنا صرف سفیروں کا کام نہیں بلکہ بہت سے دیگر محکمے کام نہیں کررہے لیکن سفارت کاروں کے بارے میں غلط تاثر دینا عجیب ہے کیونکہ اگر کورونا وائرس کے دوران کی صورتحال دیکھی جائے تو پاکستانی سفارتخانوں کے  افسران نے چین میں سمندر پار پاکستانیوں کو ریسکیو کیا اور نہ صرف ان کے درمیان موجود رہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اُن میں خواراک و دیگر ضروریات بھی تقسیم کرتے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں جہاں کمی اور کوتاہی ہے وہاں کی نشاندہی کرکے مسائل کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن یہ مسائل کچھ ٹویٹس کرنے سے حل نہیں ہونگے۔

کامران یوسف براہ راست وزیر اعظم کی تنقید کی حمایت نہیں کرتے  اور کہتے ہیں کہ اگر وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو سفارت کاروں پر کوئی اعتراض تھا یا مسائل ہے تو ان کیمرہ میٹینگ میں بھی ان مسائل کا ادراک ہوسکتا تھا لیکن سرعام کسی کی توہین کرنا اور تمسخرہ اُڑانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔