1960ء کے عشرے میں جب کراچی میں صنعت کار شروع ہوئی تو دیہی پاکستان سے بہت سے مزدور کارخانوں میں محنت مزدوری کیلئے گئے۔ ان میں پختونخوا سے بھی کافی تعداد شامل تھی۔ جب بھی یہ لوگ واپس اپنے دیہات میں آتے تو رویوں میں ایک خاص قسم کی منفی تبدیلی نظر آتی۔
ان کی اکثریت زیادہ تر ان پڑھ یا نیم خواندہ تھی۔ کراچی میں ان کو صحتمند سماجی وسیاسی ماحول اور میل جول کے نہ تو مواقع میسر تھے، نہ ان کی ذہنی استعداد اتنی تھی اور نہ ہی ان کے پاس اس میں شامل ہونے کیلئے وقت میسر تھا۔ زبان بھی وسیع سماجی میل جول میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتی تھی۔ کام میں درپیش مسائل کے وجہ سے ان کی سیاسی دوڑ صرف مزدور یونین تک ہوتی جہاں ان کا واسطہ بسا اوقات بازاری قسم کے مزدور لیڈروں سے ہوتا تھا جو ان کے ایک مخصوص نعروں سے ایک خاص قسم کے ذہن سازی کرتے تھے۔
یہ لوگ احساس کمتری کے شکار ہوتے لیکن جب بھی اپنے علاقوں کا رخ کرتے تو ایک دم احساسی برتری کے گھوڑے پر سوار ہو جاتے تھے۔ اردو میں اور کچھ سیکھتے یا نہیں لیکن چند معروف گالیاں ضرور رٹہ کئے ہوتے۔ ان کا ردیف قافیہ بلکہ تکیہ کلام ''ب چ'' ہی ہوتا۔ بعض کو تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ یہ کلماتِ ناپسندیدہ اور گالی ہے۔ ان معاشی مائیگرنٹس کو گاؤں کی پوری طرز حیات الٹی نظر آتی اور رہنے والے ان پڑھ، اجڈ اور نکمے لگتے تھے۔
آج کل یہی صورتحال بلکہ پیچیدہ شکل میں سمندر پار پاکستانیوں کی ہے کیونکہ ملک سے دور یکسر مختلف سماجی، سیاسی، معاشی اور سائنسی ترقی کی نظام میں بس رہے ہیں۔ موجودہ دور میں سمندر پار پاکستانیوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو امریکہ یا دیگر یورپی ومغربی ترقی یافتہ ممالک میں ہیں۔ دوسرا جو خلیجی ممالک میں ہیں۔ خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے لیکن وہاں کے سخت قوانین کی وجہ سے ان کو صرف ورک پرمٹ ملتا ہے لیکن شہریت لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ان دو قسم کے سمندر پار پاکستانیوں کے رویوں اور نقطہ نظر میں کافی فرق ہے۔ حقیقت میں زیادہ زرمبادلہ خلیجی ممالک میں رہائش پذیر محنت کش بھیجتے ہیں۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے ان کی اکثریت خاندان کے بغیر اکیلے رہتی ہے۔ دوسرا ان کی زیادہ تر تعداد غیر یا معمولی ہنرمند مزدوروں پر مشتمل ہے اور سخت قوانین کے وجہ سے اکثریت کے بینکوں میں اکاؤنٹس بھی نہیں ہوتے۔ ان کا تعلق نچلی سطح کے معاشی گروہ سے ہے۔ یہاں ان کے خاندانوں کو بنیادی اخراجات کیلئے مسلسل پیسوں کے ضرورت ہوتی ہے۔
اس وجہ سے نہ مغربی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کی طرح وہاں پیسے انویسٹ کر سکتے ہیں نہ زیادہ عرصہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک کے بادشاہتیں سیاست اور میڈیا سے متعلق سخت گیر قوانین رکھتی ہیں جس کے وجہ سے یہ پاکستانی مغربی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کے طرح نہ وہاں کے اندرونی اور نہ بین الاقوامی، بمعہ اپنے ملک کے، سیاست سے متعلق اعلانیہ سرگرمیاں کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے خلیجی ممالک سے آئے ہوئے پاکستانی عموماً اپنے ملک آکر آزادی محسوس کرتے ہیں۔ تاہم زیادہ تکبر اور تعصب کا شکار مغربی ممالک میں رہائش اور سکونت پذیر پاکستانی ہیں۔
ان کے مسائل میں پہلی چیز تو یہ ہے کہ وہ پیسہ کمانے اور شہریت لینے کے باوجود ذہنی احساس کمتری سے نہیں نکلتے۔ اگر یہ لوگ قانونی طور پر اس معاشروں کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن ذہنی طور پر نہیں اور دوسرا ستم ظریفی ان کے ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ واپس اپنے ملک اور معاشرے میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے۔
حقیقت میں ان سمندر پار پاکستانیوں کی اکثریت یا تو غیر قانونی طور سرحدیں پار کرکے یا جعلی دستاویزات بنا کر وہاں پہنچی ہیں۔ باقی بڑے سول وفوجی افسروں اور کاروباری افراد کے بچے ہیں جو تعلیم حاصل کے لئے گئے اور بعد میں وہاں کے شہریت یا سکونتی دستاویزات حاصل کرکے وہاں رہایش پذیر ہوگئے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے سب نے کسی نہ کسی شکل میں وہاں کے فلاحی جمہوری اور انسان دوست قوانین کا فائدہ اٹھایا۔ لیکن وہاں بھی ان کے رویہ میں ایک کھلا تضاد یہ ہے کہ اپنے ذاتی مقصد اور تحفظ کی حد تک وہاں کے فلاحی جمہوری نظام، قانون کی حکمرانی اور ایک حد تک شخصی آزادی پسند ہے لیکن وہاں کے بعض سماجی اور ثقافتی حقیقتوں کو قبول کرنے میں ان کو دقت کا سامنا ہوتا ہے۔
جب خود جوان ہوتے ہیں تو وہاں کی آزادی ان کے لئے محسور کن ہوتی ہے اور اس سے ہر طرح سے مستفید ہوتے ہیں لیکن جونہی شہریت حاصل کرکے خاندان کو وہاں بلاتے ہیں تو پھر وہاں ان کو ایک چھوٹا پاکستان چاہیے ہوتا ہے، جہاں پر اسلامک سکول ہوں، اسلامک کونسل اور مساجد ہوں جو ان کو اپنے خاندان خصوصًا بچوں پر سماجی اور ثقافتی کنٹرول میں معاون ہوں۔ یا پھر پاکستاں میں ان کو محفوظ ماحول اور مناسب ترقی اور قانون کی حکمرانی چاہیے ہوتی ہے جہاں یہ اپنے جوان ہوئے بچوں کو بھی واپس بھیج سکیں اور رہنے والی ملک میں ان کو امیج کا مسئلہ بھی نہ ہو۔ لہذا یہ بازاری لیڈری کی فتہ انگیزیوں کا آسانی سے شکار بنتے ہیں۔
اس کے علاوہ نودلتیوں اور نام نہاد مڈل کلاس یا درمیانہ سماجی طبقہ ہے۔ اس میں صرف چند میرٹ پر آسائش زندگی کے زینہ پر قدم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے بچوں کو اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر ہو جاتے ہیں، اور ایک محدود سماجی دائرے میں میل جول رکھتے ہیں۔ یوں وسیع اور زمینی سماجی، سیاسی اور معاشی حقیقتوں سے ان کا تعلق بالواسطہ ہوتا ہے۔
یوں ان کے سماجی تعصبات اور خواہشات زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ بجائے اپنے پیروں کو ہمیشہ آسمان کے طرف دیکھتے ہیں۔ یہ اپنے سے کمتر کو حقارت اور بالاتر کو حسرت کے نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ اپنے سے نیچے معاشی گروہ کے افراد سے تعلق اور رکھ رکھاؤ ان کے نام نہاد خود ساختہ اخلاق وتربیت پر برا اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ سماجی میل جول کیلئے اکثر مہنگے کیفے اور ریسٹورنٹس کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ اپنے احساس برتری کی ذہنی تسکین کر سکیں۔
تقریباً ایک عشرہ پہلے تک یہ گروہ عملی سیاست اور سیاسی کارکنوں کو حقیر سمجھتے تھے۔ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا حتیٰ کہ ووٹ دینے کیلے قطار میں کھڑے ہونا ان کی نظر میں توہین آمیز اور حقیر عمل تھا۔ ان کے نظر میں سیاست ایک گندے دھندے کے سوا کچھ نہیں ہے اور تمام سیاست دان بدعنوان، بے ایمان اور قابل نفرت ہیں۔ یہ سیاسی نظرییے اور بیانیہ کو بھی ٹرینڈ اور فیشن کے عینکوں سے دیکھتے ہیں۔ بظاہر باتیں فلاحی ریاست اور قانون کے حکمرانی کی کرتے ہیں لیکن گیت وہی گاتے ہیں جو ان کو ریاست کے معماروں نے ذہن نشین کرائے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ایشئن ٹایگر بھی بن جائے، ساتھ ساتھ افغانسان کو پانچواں صوبہ بنائے اور لال قلعہ پر سبز ہلالی جھنڈا بھی لہرائے۔ پھر بھی ان کی نظر میں ہر وہ سیاسی لیڈر کرپٹ ہے جس نے اس نظریہ کی مخالفت کی کہ بیک وقت گریژن سٹیٹ اور جمہوری فلاحی ریاست خام خیالی ہے۔
یہ طبقہ عمران خان کا سپورٹر کیوں بنا؟ میرے نظر میں اس کے دو اہم عوامل ہیں۔ ایک تو عمران خان ایک سلیبریٹی ہے جو ان کے ٹرینڈ اور فیشن والی ذہنیت کی تسکین کرتا ہے۔ دوسرا، طاقتور حلقوں نے اس دفعہ شعوری طور پر اس کلاس کی نفسیات اور تعصبات کو نظر میں رکھتے ہوئے موبلائز کیا۔ ان کے ذہن میں یہ رکھا کہ اس دفعہ تم لوگ انقلابی تحریک کے روح رواں ہو۔ ان کے لئے اس سکریپٹیڈ اور کٹرولڈ نام نہاد تحریک میں شرکت کو محفوظ بنایا، بلکہ فیشن بنایا، نہ پولیس نہ لاٹھی چارج اور نہ کوئی گرفتاری۔ دوسرا، ان کے مزاج کو مدنظر رکھ کر پی ٹی آئی کے ہر دھرنا اور جلسہ میں کچھ نہ کچھ رنگینی پیدا کی۔ مثلاً ذیادہ تر جلسے رات کے وقت منعقد کرنا، اس میں بیٹھنے کیلئے اور روشنی کا اچھا انتظام، جینز میں ملبوس جوان عورتوں کی شرکت کا بندوبست اور میڈیا کا تنقیدی آنکھ بند کرنا شامل تھے اور اب تک ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پروپیگنڈا کے زور پر ان کے تعصب اور نفرت کو اس حد تک پہنچایا گیا ہے کہ ایک بندے کو پونے چار سال حکمرانی کے بعد، جو ہر حوالے سے بدترین تھی، آئینی عمل کے ذریعے نکال دیا، بجائے کہ اس سے کارکردگی کے حوالے سوالات پوچھیں، یہ اب بھی ان کو ہیرو سمجھتے ہیں۔ اللہ اس ملک پر رحم فرمائے!