آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت پر سپورٹرز ناراض ہیں، اس کی وضاحت کرنی ہو گی، رانا ثناء اللہ

آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت پر سپورٹرز ناراض ہیں، اس کی وضاحت کرنی ہو گی، رانا ثناء اللہ
پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راناثنااللہ نے کہا کہ معلوم ہوا ہے کہ پارٹی کی سینئر لیڈر شپ نے سب کو آرمی ایکٹ پراعتماد میں لیا ہے،یہی وجہ ہے کہ ہم پارٹی قیادت کے فیصلے کے ساتھ ہیں تاہم لیگی کارکنان اس فیصلے پر ناراض ہیں، اس فیصلے پر کارکنان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔

لیگی رہنما نے واضح کیا کہ ووٹ کو عزت دو سے مراد یہ نہیں ہے ووٹ ہمیں دو مقصد یہ ہے کہ عوام کے فیصلوں کا احترام کیا جائے،ملک کو آگے بڑھانا ہے تو عوام کے فیصلوں اور ووٹ کی عزت کرنا ہوگی اگر سلیکٹیٹد کا سلسلہ چلتا رہا تو ملک آگے نہیں چل سکے گا۔

قومی اسمبلی نے سروسز ایکٹ 1952ء میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کیا، اس موقع پر وزیراعظم عمران خان بھی ایوان میں موجود تھے۔

آرمی، نیوی، فضائیہ کے ایکٹس میں ترامیم کی شق وار منظوری لی گئی۔


مسلم لیگ ن کے رہنماء پرویز رشید نے اس ایکٹ کی منظوری پر شاعرانہ انداز میں تبصرہ کیا:

ان تند ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتے۔۔۔۔۔

ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے۔۔۔۔

https://twitter.com/SenPervaizRd/status/1214476668011778054?s=20

اس فیصلے پر سوشل میڈیا پر تنقید کی گئی، طلحہ غوری نے لکھا کہ ووٹ کو عزت دو تحریک کا سفر، بوٹ کو عزت دو پر احتتام پذیر ہوگیا۔

https://twitter.com/TalhaGhouri786/status/1214443598697127938?s=20

عمران وسیم نےلکھا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری کےبعد اکثر رہنماؤں نے پوچھا کہ ووٹ کو عزت دو سویلین بالادستی کا بیانہ کدھر گیا تو خواجہ آصف نے کہا کہ شہبازشریف آ کربتائیں گے بیانیہ کدھرہے آج خواجہ آصف کے الفاظ انہی کیلئے دہرانے کو دل کررہا ہے کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے.

https://twitter.com/imwasim19/status/1214497451761131522?s=20

صحرا نورد نے لکھا کہ جو سیاسی جماعت ووٹ اور ووٹرز کو عزت نہ دے ایسی جماعت کےلئے اپنی توانائیاں،محنت ضایع نہ کریں اور اپنی جانیں خطرے میں نہ ڈالیں.

https://twitter.com/Aadiiroy/status/1214489947576700928?s=20

عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ "سویلین بالادستی کا نعرہ محض نظر کا دھوکا اور موقع پرستی تھی۔ اچھا ہوا چند لوگ تو پہچانے گئے۔"

جرمنی کی چڑیا نامی ٹویٹر اکاونٹ سے لکھا گیا کہ محسن داوڑ علی وزیر اور مٹھی بھرمخالفت کرنے والے تمام لوگ تاریخ کی کتابوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ آج انہوں نے اک جابرحکمراں کے سامنے کلمہ حق اور بغاوت کا پرچم بلند کیا اورحمایت میں ووٹ دینے والےہمیشہ کیلئے دفن ہوگئے، ووٹ کو عزت بیانیہ والے ظالم گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔ 

https://twitter.com/Sparrow990/status/1214504924597411850?s=20

آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کیا ہے؟

یکم جنوری کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دی گئی تھی۔

وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کی منظوری دی جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع کا طریقہ کار وضع کیاگیا ہے۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل میں ایک نئے چیپٹرکا اضافہ کیا گیا ہے، اس نئے چیپٹر کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی کا نام دیا گیا ہے۔

اس بل میں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت تین سال مقررکی گئی ہے جب کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہونے پر انہیں تین سال کی توسیع دی جا سکے گی۔

ترمیمی بل کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی مفاد اور ہنگامی صورتحال کا تعین کیا جائے گا، آرمی چیف کی نئی تعیناتی یا توسیع وزیراعظم کی مشاورت پر صدر کریں گے۔

'دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی'

ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی ریٹائر ہونے کی عمر کا اطلاق آرمی چیف پر ہوگا۔

علاوہ ازیں ترمیمی بل کے مطابق پاک فوج، ائیر فورس یا نیوی سے تین سال کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا تعین کیا جائے گا جن کی تعیناتی وزیراعظم کی مشاورت سے صدر کریں گے۔

ترمیمی بل کے مطابق اگر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی پاک فوج سے ہوا تو بھی اسی قانون کا اطلاق ہو گا، ساتھ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو بھی تین سال کی توسیع دی جاسکے گی۔

واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر 2019 کی رات 12 بجے مکمل ہورہی تھی اور وفاقی حکومت نے 19 اگست کو جاری نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں3 سال کی نئی مدت کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے گذشتہ سال 28 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت کیس کی سماعت کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔