بامیان کے غاروں میں رہنے والے افغانوں کی مشکلات سے بھری زندگی

بامیان کے غاروں میں رہنے والے افغانوں کی مشکلات سے بھری زندگی
افغانستان کی وادی بامیان میں لوگ اب بھی غاروں میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ غار پانچویں صدی میں راہبوں نے بنائے تھے لیکن اب یہاں بڑی تعداد میں افغان خاندان آباد ہیں۔

ان غاروں میں رہنے والوں کی زندگی پہلے بھی آسان نہیں تھی لیکن اب افغانستان پر طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔



غاروں میں رہائش پذیر ایک خاتون کا کہنا ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد ہمارے پاس کچھ باقی نہیں بچا، کوئی کاروبار نہیں رہا، قیمتیں بڑھ گئی ہیں، لوگ ان دنوں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔



بنیادی ضروریات کی قیمتیں بھی بڑھ چکی ہیں۔ حتیٰ کہ لوگوں کے پاس کھانا خریدنے تک کے پیسے نہیں ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان کے لئے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔



ان غاروں میں رہائش پذیر ایک اور شخص نے بتایا کہ میرا خاندان 9 افراد پر مشتمل ہے اور ان میں سے ایک معذور ہے۔ اس نے اپنا ہاتھ کھو دیا ہے اور بچے آلو کے کھیت میں کام کرتے ہیں۔ جب وہ تقریباً 7 سے 10 کلوگرام آلو جمع کرتے ہیں تو اس کے بدلےمیں انھیں 150 افغانی پیسے ملتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ جب سے امارات اسلامیہ نے اقتدار سنبھالا ہے، یہاں کوئی کام نہیں ہے، نہ تو ملک میں کوئی تعمیراتی کام ہو رہا ہے اور نہ ہی کھیتوں میں۔



خیال رہے کہ وادی بامیان کے غاروں میں تقریباً 700 افغان خاندان آباد ہیں، ان بے چاروں کے پاس مال ودولت نام کی کوئی شے موجود نہیں، ان کے پاس تو اتنی بھی سکت نہیں کہ عام انسانوں کی طرح گھر بنا کر رہ سکیں۔



ان افغان باشندوں کیلئے ضروریات زندگی بھی پورا کرنا مشکل ہے۔ غربت کا یہ عالم ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ اس علاقے دور دور تک کوئی سکول بھی نہں ہے۔ سخت غربت و افلاس کے سبب لوگ اپنے بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں۔