Get Alerts

حقیقی جمہوریت کیلئے سیاسی جماعتوں کو فنانسرز سے جان چھڑانا ہو گی

تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ٹیکس گوشوارے جمع کرانا لازمی قرار دیا جائے تاکہ شہری اُن کے مالیاتی امور کو جانچ سکیں۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کو غیر نفع بخش اداروں کے طور پر چلایا جاتا ہے، جن کا واحد مقصد عوامی فلاح ہوتی ہے۔ دنیا میں سیاست سے پیسہ کمانے کا کوئی تصور موجود نہیں مگر پاکستان اور ہمارے جیسے کئی دیگر ملکوں میں عملاً ایسا ہی ہوتا ہے۔

حقیقی جمہوریت کیلئے سیاسی جماعتوں کو فنانسرز سے جان چھڑانا ہو گی

ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوری اقدار کا فقدان ہے اور رائج قوانین کی خلاف ورزی ان کی دائمی خامی ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر مخصوص شخصیات کی اجارہ داری رکھنے والی یہ سیاسی جماعتیں اپنے داخلی اور خارجی معاملات میں قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کرتی ہیں اور اس پر ان کو کبھی ندامت بھی نہیں ہوتی۔ دراصل قوانین کی خلاف ورزی پر اظہار ندامت ہماری سیاسی اشرافیہ کی لغت میں ہے ہی نہیں۔

ہرسال الیکشن کمیشن آف پاکستان قوم کو قانون کے مطابق مطلع کرتا ہے کہ رجسٹرڈ جماعتوں کی اکثریت نے قانون میں درج طریقِ کار کے مطابق اپنے حسابات (اکاؤنٹس) بروقت جمع نہیں کرائے۔ اسی طرح منتخب افراد کے بارے میں ہر سال نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے سالانہ گوشوارے الیکشن کمیشن کو بروقت جمع کروانے میں تساہل سے کام لیا ہے۔

271 منتخب افراد نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ (1)37 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 31 دسمبر 2022 تک اپنے گوشوارے جمع نہیں کروائے تھے۔ الیکشن کمیشن نے گوشوارے وقت پر جمع نہ کروانے پر ان کی رکنیت معطل کر دی تھی، جو بعد میں گوشوارے جمع کروانے پر بحال ہو گئی تھی۔ اس کے لئے نہ کوئی جرمانہ نہ سزا۔ پاکستان میں الیکشن ایکٹ 2017 کے نفاذ کے بعد سے یہ محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔ ایسا ہر سال ہوتا ہے، اور آئندہ عام انتخابات کے بعد 2024 میں بھی ہو گا۔ قانون میں ترمیم کی ضروت ہے کہ ممبر پارلیمان مقررہ تاریخ کے بعد، بغیر معقول وجہ بتا کر اجازت حاصل کرنے کے، گوشوارہ جمع نہ کروانے پر باقی مدت اور اگلے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے خود بہ خود قانونی طور پر نااہل قرار پائے گا۔

آئین پاکستان کا آرٹیکل (3)17 واضح طور پر کہتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو اپنے وسائل کے ذرائع کے بارے میں قانون کے مطابق حساب رکھنا ہوگا۔ اس بارے میں الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 210 کی شق (بی)(1) میں واضح ہدایات موجود ہیں کہ ہر مالی سال کے 60 دن کے اندر رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو اس بارے میں تصدیق شدہ، قانون، الیکشن رولز مجریہ 2017، کے مطابق واضح کردہ سٹیٹمنٹ الیکشن کمیشن کو جمع کروانی ہو گی۔

الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 204 کے مطابق:

1۔ ہر رکن سیاسی جماعت کو اس کے آئین میں درج فیس اور چندہ دے گا۔ اس کے علاوہ کسی بھی حد کے بغیر عطیات دے سکتا ہے۔

2۔ ہر طرح کی فیس، چندہ اور عطیات سیاسی جماعت کو اپنے کھاتوں میں درج کرنا ہوں گے۔

3۔ کسی بھی بیرونی حکومت، کمپنی، فرم، پیشہ ور یا کاروباری ایسوسی ایشن سے بالواسطہ یا بلا واسطہ رقم لینے پر پابندی ہے، ہاں البتہ انفرادی عطیات وصول کئے جا سکتے ہیں۔

4۔ ممنوعہ عطیات بحق سرکار ضبط کئے جائیں گے۔

اس قانون کے تحت عطیات میں کیش، سٹاک، مہمانداری، رہائش، ٹرانسپورٹ، فیول اور ہر طرح کی سہولیات کا فراہم کرنا شامل ہیں۔

2017 سے 2023 تک زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے قانون میں درج وقت پر اکاؤنٹس جمع نہیں کروائے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 210 کی خلاف ورزی پر ان کو الیکشن کمیشن نے نوٹس بھی جاری کیے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ان جماعتوں میں عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ پاکستان، پاکستان مسلم لیگ (ضیاء)، بلوچستان نیشنل پارٹی، تحریک لیبک، آل پاکستان مسلم لیگ اور سنی تحریک شامل تھیں۔

یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ صرف دو سیاسی جماعتوں کے علاوہ 171 رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں نے انکم ٹیکس کے گوشوارے بھی جمع نہیں کروائے جو قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس کی تفصیل مندرجہ ذیل میں ہے:

An Open Mockery Of The Constitution, Friday Times, April 12, 2023

2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پارٹیوں کو قانون کی پاسداری نہ کرنے پر نوٹس بھیجا۔ کسی چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ سے تصدیق کردہ اکاؤنٹس، جس میں ان کی آمدن، اخراجات، فنڈز کے ذرائع اور اثاثوں کی تفصیل درج ہو، کو جمع نہ کرانا الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی ہے۔ اس خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والی جماعت وفاقی یا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات لڑنے کے لیے انتخابی نشان حاصل کرنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس قانون کو کبھی بھی نافذ نہیں کیا۔ قانون میں ترمیم ہونی چاہئیے کہ اس خلاف ورزی پر جرمانہ اور لگاتار خلاف ورزی پر جماعت کی رجسٹریشن ختم ہو جائے گی۔

ہماری سرکردہ سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں جمہوریت متعارف کرانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنے منشور کے مطابق داخلی طور پر انتخابات بھی نہیں کراتیں، حالانکہ قانون اُنہیں ایسا کرنے کا پابند کرتا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت بھی ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی زحمت نہیں کرتی، اور نا ہی اپنی آمدنی اور اخراجات اور فنڈز کی تفصیل اور عطیات فراہم کرنے والوں کے ناموں سے عوام کو آگاہ کرتی ہے۔ جو چیز صورتِ حال کو مزید تکلیف دہ بنا دیتی ہے وہ متعلقہ اداروں، جیسا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا سیاسی جماعتوں کی جانب سے قانون کی پامالی سے اغماض برتنا ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 210 کی روح سے ہر سیاسی جماعت الیکشن رولز مجریہ 2017 میں موجود فارم میں درج طریقِ کار کے مطابق اپنا اکاؤنٹ کھلوائے گی۔ اس میں آمدن، اخراجات، فنڈز کے ذرائع اور اثاثوں کی تفصیل مالی سال (جولائی تا جون) ختم ہونے سے 60 دن پہلے ایک مستند سٹیٹمنٹ، جس کی کسی چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ نے تصدیق کی ہو اور جس پر پارٹی قائد کے دستخط موجود ہوں، الیکشن کمیشن کے پاس 31 اگست تک جمع کرائے۔ اس سٹیٹمنٹ کے ہمراہ ایک سرٹیفکیٹ بھی ہو جس میں پارٹی قائد کے دستخط کے ساتھ یہ تصدیق کی گئی ہو کہ اس کی جماعت کسی ایسے ذرائع سے فنڈز نہیں لے گی جسے قانون ممنوع قرار دیتا ہے۔

رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی اکثریت مندرجہ بالا قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس کا مقصد رائے دہندگان، سیاسی کارکنوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کو سیاسی جماعتوں کے مالیاتی امور کی شفافیت سے باخبر رکھنا ہوتا ہے، لیکن الیکشن کمیشن اس کے نفاذ کی زحمت نہیں کرتا۔

مالی سال کے ختم ہونے پر اپنے اثاثے اور اُن کی تفصیل وقت پر جمع نہ کروانا پارلیمان کے ممبرز کا اپنے بنائے ہوئے قانون کا کھلا مذاق ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی کی صورت میں ان کی جماعت بھی کوئی تادیبی کارروائی نہیں کرتی۔ یہ افسوس ناک عمل ہے۔ ایک تو قوانین کا نفاذ انتہائی غیر تسلی بخش ہے اور اس پر جماعتوں کی بے حسی، جمہوری اقتدار کا فقدان اور خود احتسابی کے نظام کی غیر موجودگی فوری توجہ طلب مسئلہ ہے۔ قوم کی اکثریت مالی مشکلات اور مہنگائی کے ہاتھوں لاچار ہے اور سیاست دان ایک دوسرے کو بدعنوان اور غدار تک قرار دینے میں مصروف، خود قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور نا ہی عوام کی ان کو کوئی پروا ہے۔

ہر سال الیکشن کمیشن اثاثے وصول تو کر لیتا ہے اور تاخیر پر کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی اور نا ہی ان کی جانچ پڑتال کا کوئی نظام موجود ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 میں اس کے بارے میں کوئی میکنزم موجود نہیں جس کے ذریعے الیکشن کمیشن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیل کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا ارکان اپنی درست آمدن اور اثاثے ظاہر کر رہے ہیں، کیا اُن کی بیان کردہ آمدن اُن کے شاہانہ طرزِ زندگی سے مطابقت رکھتی ہے؟

قومی احتساب بیورو (نیب) نے بھی کبھی قانون سازوں کے اعلان کردہ اثاثوں کی چھان بین کی زحمت نہیں کی کہ اتنی معمولی آمدنی ظاہر کرنے والے اتنی عالیشان زندگی کیونکر بسر کر سکتے ہیں؟ اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں اکثر ارکان اپنی آمدن صرف وہی ظاہر کرتے ہیں جو اُنہیں سرکاری طور پر مشاہرہ ملتا ہے، حالانکہ اُن کی پرتعیش زندگی، غیر ملکی دورے، مہنگی گاڑیاں، ملازموں کی فوج اور دیگر مہنگے لوازمات کوئی اور ہی کہانی سنا رہے ہوتے ہیں۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے کبھی انہیں نوٹس بھیجنے کی زحمت یا جسارت نہیں کی۔ انڈیا میں انکم ٹیکس ایکٹ 1961کے تحت سیاسی جماعتوں پر ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی پابندی ہے۔ چیف الیکشن کمیشن آف انڈیا سنٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز سے سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی جانچ کرنے کا کہتا ہے؛ تاہم پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں الیکشن کمیشن، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور نیب اس اہم معاملے سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ٹیکس چوروں اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کو کالا دھن سفید کرنے کے لئے سکیموں سے نوازا جاتا ہے۔ وہ اربوں روپے مالیت کا کالا دھن نہایت آسانی سے سفید کر لیتے ہیں۔ کچھ عوامی عہدے رکھنے والوں اور ان کے اہل خانہ کے افراد فرضی افراد کا نام استعمال کر کے ان سکیموں سے جو کہ پارلیمان نے قانون کے طور پر پاس کیں، استفادہ کرتے ہوئے دولت کے ڈھیر لگا چکے ہیں۔ ان سب کو ریاست کو دھوکہ دینے کی پاداش میں نااہل قرار دیا جانا چاہئیے۔ تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور الیکشن کمیشن نے نیب کے پاس ایک بھی ایسا کیس نہیں بھجوایا حتیٰ کہ پاناما پیپرز کے بعد بھی کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آیا اور 2018 اور 2019 میں ان کو کالا دھن سفید کرنے کے لئے سکیموں سے نوازا گیا۔

ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ٹیکس گوشوارے جمع کرانا لازمی قرار دیا جائے تاکہ شہری اُن کے مالیاتی امور کو جانچ سکیں۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کو غیر نفع بخش اداروں کے طور پر چلایا جاتا ہے، جن کا واحد مقصد عوامی فلاح ہوتی ہے۔ دنیا میں سیاست سے پیسہ کمانے کا کوئی تصور موجود نہیں مگر پاکستان اور  ہمارے جیسے کئی دیگر ملکوں میں عملاً ایسا ہی ہوتا ہے۔

ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بھاری سرمایہ کاری کر کے مزید نفع کمانے والے بڑے ناموں کے اثر سے بچایا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ عوام اپنے اپنے نظریات اور مقاصد کے مطابق سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی اختیار کریں۔ ان کے مالی تعاون سے سیاسی جماعتیں 'بھاری بھرکم فنانسر' کے اثرات سے نکل سکتی ہیں، لیکن عوام کی سیاسی، جمہوری اور انتخابی عمل میں مؤثر شمولیت اُسی وقت ممکن ہو گی جب وہ سیاسی جماعتوں کے مالی امور کی بابت پراعتماد ہوں گے۔ چنانچہ سیاسی جماعتوں کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے مالی امور کو شفاف رکھتے ہوئے عوام کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔ اس سے نا صرف وہ اپنی ساکھ بہتر بنائیں گی بلکہ فنانسر کی بلیک میلنگ سے بھی بچ جائیں گی۔ عوامی تعاون آہستہ آہستہ شخصیت پرستی کو کمزور کر کے حقیقی جمہوریت کو فروغ دے گا۔ چنانچہ جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی، تو وہ زیادہ معقول اور شفاف رویہ اپنائے گی۔

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔