Get Alerts

سیاسی جماعتیں انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے سے کیوں گریزاں ہیں؟

تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ٹیکس سال 2023 کے لئے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا وقت گزر چکا ہے۔ ایف بی آر کو اس کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے تھی کہ ماسوائے دو کے باقی سیاسی جماعتوں نے قانون کی خلاف ورزی کیوں کی۔ ان کو اب تک قانون کے مطابق نوٹس کا اجرا ہو جانا چاہیے تھا۔

سیاسی جماعتیں انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے سے کیوں گریزاں ہیں؟

اب جبکہ انتخابات میں محض 12 دن رہ گئے ہیں، یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں رجسٹرڈ 27 میں سے صرف 2 سیاسی جماعتوں نے ٹیکس سال 2023 کے لیے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں رجسٹرڈ 166 سیاسی جماعتوں اور ایک سیاسی اتحاد نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 114(1)(ac) کے مطابق سب سیاسی جماعتوں کے لئے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانا لازمی ہے۔ سیاست دان ہر وقت ایف بی آر کو کوستے رہتے ہیں، لیکن خود قانون اور آئینی حکم پر عمل نہیں کرتے۔

اس صورت حال میں ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی توقع کیسے کر سکتے ہیں جب 166 رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں اور ایک سیاسی اتحاد، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 5(2) کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں جس کے مطابق؛ 'دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری، خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخض کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو، کی واجب التعمیل ذمہ داری ہے'۔

اب (25 جنوری 2024 کو صبح 11 بجے) تک رسائی حاصل کرنے اور ایف بی آر کی فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست (اے ٹی ایل)، جو کہ 22 جنوری 2024 کو اپ ڈیٹ کی گئی تھی، ڈاؤن لوڈ کرنے سے اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ پاکستان کی تین اہم جماعتیں، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، فائلرز کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

یہ سیاسی جماعتوں کی قانونی ذمہ داری ہے اور آئین کے آرٹیکل 17(3) کے تحت یہ حکم بھی ہے کہ 'ہر سیاسی جماعت قانون کے مطابق اپنے مالی ذرائع کے ماحذ کے لئے جوابدہ ہو گی'۔

ہندوستان میں انکم ٹیکس ایکٹ 1961 کے سیکشن 13اے کے تحت سیاسی جماعتوں پر انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی پابندی ہے۔ یہ سیکشن کسی رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو ٹیکس سے چھوٹ دیتا ہے، اگر وہ اکاؤنٹس کی ایسی کتابیں اور دیگر دستاویزات کو برقرار رکھتی ہے، جس سے ٹیکس افسر اس سے آمدنی کا صحیح تخمینہ لگا سکتا ہے۔ 25 ہزار ہندوستانی روپے سے زیادہ کی ایسی ہر رضاکارانہ شراکت کے لیے (انتخابی بانڈ کے ذریعے شراکت کے علاوہ)، اس طرح کی شراکت کا ریکارڈ رکھتا ہے اور اس شخص کا نام اور پتہ رکھتا ہے جس نے اس طرح کی شراکت کی ہے۔ اکاؤنٹس کا آڈٹ تصدیق شدہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ تشخیصی سال 2018-2019 سے مؤثر، بینک یا اکاؤنٹ وصول کنندہ کے بینک ڈرافٹ یا بینک اکاؤنٹ کے ذریعے یا الیکٹورل بانڈ کیش کے ذریعے الیکٹرانک کلیئرنگ سسٹم کے استعمال کے ذریعے دو ہزار روپے سے زیادہ کے عطیہ کی اجازت نہیں ہے۔

پاکستان میں آج تک ہمارے بار بار لکھنے کے باوجود اس طرح کی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کبھی ایف بی آر اور ای سی پی نے بھی اس کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن حقیقت یہ ہے کہ اس کا ذکر تک میڈیا میں نہیں ہوتا اور نا ہی ہماری فعال سول سوسائٹی اس کے بارے میں آگاہی رکھتی ہے۔

بھارت کا چیف الیکشن کمشنر ہر سال بھارتی سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز سے سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کرائے گئے کھاتوں کی تفصیل طلب کرتا ہے۔ سنٹرل انفارمیشن کمیشن آف انڈیا انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ ان کے ٹیکس گوشواروں میں سیاسی جماعتوں کو فنڈز فراہم کرنے والی تمام تفصیلات عوامی مفاد میں ظاہر کرے۔ عوامی مفاد میں اس معلومات کے ساتھ، کمیشن انتخابی عمل میں کالے دھن کے بہاؤ کو روکنے کے علاوہ چھوٹی اور بڑی پارٹیوں کی فنڈنگ میں شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پاکستان میں نہ تو ای سی پی اور نہ ہی ایف بی آر نے کبھی بھی مذکورہ بالا اہم معاملے پر غور کرنے کی زحمت کی ہے۔ ای سی پی کو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 210 کے تحت سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کرائے گئے پبلک اکاؤنٹس کو بھی الیکشن رولز 2017 کے رول 159 کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔

تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ٹیکس سال 2023 کے لئے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا وقت گزر چکا ہے۔ ایف بی آر کو اس کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے تھی کہ ماسوائے دو کے باقی سیاسی جماعتوں نے قانون کی خلاف ورزی کیوں کی۔ ان کو اب تک قانون کے مطابق نوٹس کا اجرا ہو جانا چاہیے تھا۔ ایف بی آر نے اس ضمن میں کچھ کیا ہے یا نہیں، اس کے بارے میں عوام کو معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں، حالانکہ آئین کے آرٹیکل 19 اے کی روح سے یہ ان کا بنیادی حق ہے۔

اس سلسلے میں ایف بی آر اور ای سی پی کی مجرمانہ خاموشی انتہائی افسوس ناک بھی ہے اور آئین سے سراسر روگردانی بھی۔ افسوس صد افسوس کہ اداروں میں اصلاحات اور تنظیم نو کی بات کرنے والے اور اپنے اختیارات سے تجاوز کی روش پر کاربند رہنے والے پر اس طرح کی غفلتوں کے ضمن میں کان پر جوں بھی نہیں رینگتی، گو وہ ہر وقت اپنے آپ کو قوم کا مسیحا اور مصلح ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کو ان کی اورای سی پی کی ویب سائٹ پر عام کیا جانا چاہیے، جس پر کسی بھی شہری کو آئین کے مطابق سوال کرنے کا حق حاصل ہے۔ جماعتوں کی طرف سے موصول ہونے والے عطیات کو ٹیکس کریڈٹس کے لیے اہل ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001 میں وضاحت کے ساتھ ترمیم کی ضرورت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو لازمی طور پر اپنے آپ کو انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001 میں غیر منافع بخش تنظیموں کے طور پر رجسٹر کروانا چاہیے، تا کہ ان کو سیکشن 100 سی کا کریڈٹ مل سکے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001  کے مطابق اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو ان کے عطیات اور بنکوں سے منافع یا کوئی اور آمدن پر ٹیکس لاگو ہے۔

بہت سے نام نہاد ماہر انکم ٹیکس قوانین کے مطابق سیاسی جماعتوں پر انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی پابندی نہیں کیونکہ وہ 'person' کی 'definition' میں نہیں آتے۔ بلاشبہ یہ انتہائی جہالت پر مبنی رائے ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001 کے سیکشن 80(2) اے میں 'اشخاص کی انجمن' کی کیٹگری میں سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔

انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001 میں لفظ person یعنی شخض کی تعریف بہت وسیع ہے اور یہ association of persons کی اصطلاح میں ہر قسم کی انجمن کو شامل کرتی ہے جس میں artificial juridical persons بھی شامل ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی ہئیت کے اعتبار سے association of persons ہی ہیں اور ان پر انکم ٹیکس قوانین کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ محترم اسحاق دار صاحب نے ہماری تنقید کے بعد کہ سیاسی جماعتیں انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001 کی خلاف ورزی کرتی ہیں، ان کو مالیاتی بل 2017 میں ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی کوشش کی تھی، جس کو مزاحمت کے بعد واپس لیا گیا تھا۔

سیاسی جماعتوں کو پوری دنیا میں غیر منافع بخش تنظیمیں سمجھا جاتا ہے، جو عوامی بھلائی کے لیے کام کرتی ہیں۔ پاکستان میں ہم نے ابھی تک اس خیال کو فروغ نہیں دیا کہ سیاسی جماعتوں کو مثالی غیر منافع بخش تنظیمیں ہونا چاہیے جو حکمرانی سے متعلق تمام معاملات پر عوامی شعور اور فلاح و بہبود کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہوں۔

یہ خیال کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ ایک بار جب لوگ اپنے آپ کو کسی خاص پارٹی کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں جس کے واضح مقاصد ہوتے ہیں، تو وہ اپنی کامیابی کے لیے مالی مدد بھی کرتے ہیں، اس طرح ناپسندیدہ فنانسرز کے اثر و رسوخ کو ختم کر دیتے ہیں۔ جیسے پیسے والے لوگ ذاتی فائدے کے لیے پارٹیوں میں اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں۔ جمہوریت اور انتخابی عمل میں عوام کی بامعنی شرکت کو اسی صورت میں یقینی بنایا جا سکتا ہے جب وہ اپنے لیڈروں سے اپنے پیسے کے استعمال کے بارے میں سوال کرنے کا حق رکھتے ہوں۔ اس سے پارٹی اقتدار میں ہونے پر ایک ذمہ دار اور جوابدہ ادارہ بھی بن جائے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اسے 2024 کے اپنے اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنانا چاہیے مگر وہ تو منشور ہی پیش کرنے سے گریزاں ہیں۔

سیاست دانوں کو تمام شعبوں میں ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے، چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں۔ ریاستی اداروں کے مؤثر کام کے لیے ان کا کردار کلیدی ہے۔ رول ماڈل ہونے کے ناطے ان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے طرز عمل سے قانون کی بالادستی کی عکاسی کریں۔ ان کی جانب سے قوانین کی خلاف ورزی، بدعنوانی اور بددیانتی پورے سیاسی نظام کو بدنام کرتی ہے۔ ان کی اصل توجہ ہمیشہ اقتدار پر قبضہ رہی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سیاست میں ہر ایک کا بنیادی مقصد اقتدار پر قبضہ ہی ہوتا ہے، لیکن ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد اقربا پروری کو فروغ دینا یا غیر قانونی ذرائع سے دولت حاصل کرنا اور طاقت کا نا جائز استعمال جمہوریت کو تباہ کر دیتا ہے۔

اقتدار میں رہتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ عوامی عقیدے کی محافظ ہیں اور ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ عوامی مقاصد کے لیے کام کرنے کی پابند ہیں۔ وہ پاکستان میں ایسا کرنے میں کیوں ناکام رہے؟ اس کی بنیادی وجوہات پارٹیوں کے اندر آمریت، دولت کا استعمال، میرٹ کا احترام نہ ہونا اور احتساب کا مکمل فقدان ہے۔

اس وقت پاکستان میں کچھ کو چھوڑ کر تقریباً تمام سیاسی جماعتیں یا تو ایک فرد یا چند مٹھی بھر افراد کے زیر اثر ہیں جن کے کارکنان پارٹی کے منشور یا پروگرام کے بجائے اپنے 'سربراہ' سے وفاداری کا اظہار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پھر بدلے میں جب پارٹی اقتدار سنبھالتی ہے تو وہ 'چیف' سے ذاتی احسانات کی توقع کرتے ہیں۔

پاکستان میں ایک خودمختار احتسابی اتھارٹی کے قیام کے خلاف سیاست دانوں کی شدید مزاحمت ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا ادارہ ان کی بدعنوانی کو بے نقاب کرے گا اور ریاست پر ان کا کنٹرول ختم کر دے گا۔ آگے کا راستہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اکاؤنٹس رکھنے، معروف فرموں سے ان کا آڈٹ کرانے اور انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرانے پر مجبور کیا جائے۔ ایک بار جب اسے قانون کے تحت لازمی قرار دے دیا جاتا ہے تو ان کے پاس صرف ان لوگوں کو اپنے حلقوں میں لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا جو اپنی ٹیکس ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا کرتے ہیں۔ پارٹیوں کے اندر تطہیر کا عمل، شفاف اور جمہوری کلچر کے فروغ کی جانب ایک ضروری قدم ہے۔

اگر پاکستان کو موجودہ سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نکلنا ہے تو سیاسی جماعتوں کی جمہوریت سازی ضروری ہے۔ ایک فرد کی سیاسی زندگی کا تقاضا ہے کہ وہ مملکت کے تمام قوانین کی تعمیل کرے، اس کا ایک عملی ثبوت مالی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے۔ اگر سیاست دان اپنا ٹیکس ایمانداری سے ادا نہیں کرتا تو وہ عام شہریوں سے یہ توقع کیسے رکھ سکتا ہے؟

پاکستان میں ٹیکس کلچر اور جمہوریت کے فقدان کی جڑیں امیروں اور طاقتوروں کے ٹیکس اور انتخابی قوانین کی کھلی خلاف ورزی میں چھپی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف خود کو ٹیکس کے دائرے سے باہر رکھا ہے بلکہ وہ دوسروں کو یہ بتانے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں کہ ٹیکس حکام ان سے سوال کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ دوسری طرف وہ اندورنی شفاف انتخابات بھی نہیں کرواتے۔ ان کے لیے ذاتی طاقت کا بے ہودہ مظاہرہ اس بات پر زور دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام لوگوں سے برتر کیوں ہیں اور اس طرح ان کو حکمرانی کا ناقابل چیلنج حق حاصل ہے۔ پاکستان میں دو جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے تو ملک کو اپنی ذاتی جاگیریں سمجھ رکھا ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ اقتدار ان کی اولادوں کو وراثت میں ملے۔

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔