سیاسی جماعتیں محاذ آرائی کے بجائے عوامی خدمت پر توجہ دیں

آج پھر وفاق اور صوبوں میں عوامی مینڈیٹ کا تناسب اپریل 2022 والی سطح والا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی خدمت اور کارکردگی کی بنیاد پر مقبولیت بڑھانے کا ایک موقع مل گیا ہے جسے غنیمت سمجھتے ہوئے منفی سرگرمیوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

سیاسی جماعتیں محاذ آرائی کے بجائے عوامی خدمت پر توجہ دیں

جس طرح سے بڑی سیاسی جماعتوں کو ایک ایک صوبے میں اکثریت اور مرکز میں ایک خاص تناسب سے مینڈیٹ ملا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان پر قومی سطح پر ایک ہی طرح کی توقعات وابستہ ہیں یا پھر قوم ان کے باہمی اتحاد و اشتراک سے کام کرنے کی خواہاں ہے جبکہ صوبوں کی سطح پر ان کی علاقائی مقبولیت ان پر اعتماد کو واضح کر رہی ہے۔

فافن کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی مقبولیت برقرار رہی ہے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مقبولیت پہلے سے بڑھی ہے۔ گو اس کا تقابلی جائزہ بھی 2018 کے انتخابات سے کیا گیا ہو گا جس پر سیاسی جماعتوں کو تحفظات بھی ہو سکتے ہیں جو اپنی جگہ جائز ہوں گے۔ مگر اب ان مباحثوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ملکی معاشی حالات اس بات کے متحمل نہیں ہیں۔

لہٰذا اب سیاسی جماعتوں کو خدشات اور الزامات کی سیاست کے بجائے اپنے اپنے منشور کے مطابق عوامی خدمت کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ صوبوں میں تمام سیاسی جماعتوں کو واضح اور بھاری اکثریت حاصل ہے۔ موجودہ احتجاج اور دھرنوں کی سیاست سے مرکز میں بھی کوئی خاص برتری کے حصول کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اگر دو چار سیٹوں کا فرق پڑ بھی جائے تو پھر بھی کوئی جماعت اس سے دوسری جماعتوں کی مدد کے بغیر حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں عدم استحکام کے علاوہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ ہاں اگر وہ چاہیں تو قانونی جنگ جاری رکھیں مگر اس کو انتشار پسندی، باہمی کشمکش اور تفرقہ بازی کی طرف نہ بڑھنے دیا جائے۔

سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ عوام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق اپنے اپنے صوبوں میں ایک مسابقتی دوڑ کے ذریعے سے دوسرے صوبے کے عوام کے لئے مثال قائم کریں تا کہ ان کے عوام بھی اپنی حکومتوں پر ان کی طرز پر منصوبوں کو شروع کرنے کا دباؤ ڈالیں اور اگلے انتخابات میں ان سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کی بنیاد پر عوامی مقبولیت میں برتری حاصل کرنے کا ایک مثبت رجحان پیدا ہو۔ حکومت سازی ایک ذمہ داری کا کام ہے اور حکومت عوام کو اپنی کارکردگی کے بارے جوابدہ ہوتی ہے جس کا ایک جمہوری طریقہ کار حکومت میں اپوزیشن کے کردار کی صورت میں ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں عوامی نمائندگی کو صرف حکومت سازی کی صورت میں اختیارات کے تناظر میں ہی دیکھا جاتا ہے جبکہ یہ کردار اپوزیشن میں بیٹھ کر ایک تعمیری تنقید اور اصلاحی تجاویز کے ذریعے سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کا وفاقی پارلیمان میں تنوع بھی جمہوریت کا حسن ہے اور مل جل کر کام کرنے کا ایک نیا تجربہ ہے جس میں وہ اپنے صوبوں کی اچھے طریقے سے نمائندگی کرتے ہوئے عوام کی امنگوں کو حکومتی سطح پر وفاق میں پیش کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ترقی و خوشحالی کے ماڈلز، تجربات کی شراکت اور دوسروں سے سیکھنے کا ایک سنہری موقع ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اس تنوع کو بھی ایک چیلنج سمجھتے ہوئے اس کو مواقعوں میں بدل سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کی سوچ میں مثبت خیالی ہو۔

اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو جہاں کارکردگی دکھانے کے لئے صوبوں میں واضح مینڈیٹ دے کر حکومت بنانے کا موقع دیا گیا ہے وہاں ان کو مرکز میں ایک خاص تناسب سے نمائندگی دے کر آزمائش میں بھی ڈال دیا گیا ہے کہ ان کی سوچ و عمل میں کس قدر دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی برداشت ہے اور وہ کس قدر اکٹھے کام کرتے ہوئے پارلیمان کی بالادستی اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے مخلص ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سیاست صرف انتخابات کے انعقاد اور حکومت سازی کا ہی نام نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ وہ سیاست کے میدان میں ایک ماڈل ہیں اور ان کو عوام کے حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ان کے اندر ایک احساس ذمہ داری بھی پیدا کرنا ہے جس کو انہوں نے اپنے قول و فعل سے پیش کرنا ہے۔ ان کے رویے اور انداز سیاست بھی اسی کا حصہ ہیں۔ اگر وہ خود ہی اپنے مفادات کے لئے عوام کو انتشار اور سیاسی تفرقہ بازی کی طرف راغب کریں گے تو یہ ان کے اپنے لئے بھی ایک چیلنج ہو گا جس کی مثال ہماری پچھلی 10 سالہ سیاست میں موجود ہے اگر ہم سمجھیں تو۔ اگر کوئی جماعت دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے مشکلات پیدا کرے گی تو ردعمل میں ان کو بھی ایسا ہی ماحول ملے گا جو ایک سیاسی کشمکش، انتشار اور تفرقہ بازی میں بدلے گا جس کے اثرات صدیوں تک تباہی کا سبب بنتے ہیں۔

اگر ماضی قریب کی سیاست کو دیکھیں تو مسلسل ایک کشمکش کی صورت حال رہی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد تو صوبوں کی حکومتیں وفاق کے خلاف صف آرا ہونے کا ماحول پیش کرتی دکھائی دیتی رہیں جس کی وجہ سے آج ہم سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو کر معاشی بدحالی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ماضی میں جن سیاسی جماعتوں نے محاذ آرائی کی راہ کو چنا، انہوں نے اپنی طاقت اور مقبولیت کو کمزور کیا۔ حالیہ انتخابات میں جہاں بد انتظامی کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے اندر تحفظات پائے جا رہے ہیں ان میں تحقیقات کا مطالبہ ان کا جائز حق ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ انتخابات کے پر امن انعقاد پر فوج اور غیر یقینی صورت حال کا سد باب کر کے انعقاد کو یقینی بنانے میں سپریم کورٹ کا بھی اہم کردار ہے جس کی تعریف ہونی چاہیے۔

سیاسی جماعتوں کو اپنے ماضی کی ایسی سیاسی حکمت عملیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے جن سے ان کو کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکا اور ان کا نمائندگی کا تناسب تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تقریباً وہی رہا ہے۔ تحریک انصاف کو جتنا مینڈیٹ 2018 کے انتخابات میں ملا تھا اس سے بھی کم ہوا ہے۔ تحریک انصاف پر اُس وقت دوسری جماعتوں نے دھاندلی اور سہولت کاری کے الزامات بھی لگائے تھے جن کا بعد میں اعتراف بھی ہوا تھا اور یوں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر تحریک انصاف مقبولیت کو ثابت نہ کر سکی۔ بعد میں ہمدردیاں تو حاصل ہوئیں مگر وہ بھی کارگر ثابت نہیں ہو سکیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن نے بھی اپنی سیاسی حکمت عملیوں کی بدولت اپریل 2022 میں حکومت لے کر مہنگائی کے غضب کے سبب اپنی کارکردگی کی بنیاد پر بنائی ہوئی ساکھ کو بھی متاثر کر لیا ہے اور حالیہ انتخابات میں عوام نے ان کے 'ووٹ کو عزت دو' کے نظریے سے انحراف اور ان کی 17 ماہ کی حکومت کا بھی حساب چکا لیا ہے۔ البتہ اس سے پیپلز پارٹی کی ماضی کی ناقص کارکردگی کی طرف سے عوام کا دھیان ضرور ہٹا ہے جس سے ان کی سیٹوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

یوں آج ایک طرح سے پھر وفاق اور صوبوں میں عوامی مینڈیٹ کا تناسب اپریل 2022 والی سطح پر کھڑا دکھائی دیتا ہے اور اگر سمجھیں تو سیاسی جماعتوں کو اپنی خدمت اور کارکردگی کی بنیاد پر مقبولیت کو بنانے اور قائم کرنے کا ایک موقع مل گیا ہے جسے غنیمت سمجھتے ہوئے ان کو کسی بھی صورت منفی سرگرمیوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس لئے انہیں آپس میں اور اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے عوامی خدمت پر توجہ دینی چاہیے۔

انتخابات کے عوامی مینڈیٹ کا ایک اور بھی حساس زاویہ ہے جس کی طرف سیاسی جماعتوں اور عوام کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حالیہ عوامی مینڈیٹ کی بنیادوں پر غور کیا جائے تو جہاں مینڈیٹ کی بنیاد ان کا کردار اور کارکردگی ایک مثبت عمل کے طور پر ملتے ہیں وہیں ضد، بغض اور نفرت بھی بعض سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کی ایک واضح بنیاد ہیں جو ان کو آپس میں مل بیٹھنے میں رکاوٹ بنتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر وہ دوسری جماعتوں کے ساتھ بیٹھ گئیں تو ان کا سیاست کا جواز ہی ختم ہو جائے گا جو ایک انتہائی تشویش ناک سوچ ہے۔ جنہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی دوسروں پر الزامات کو بنایا ہوا ہے ان کو مفاہمتی سیاست کی صورت میں خطرات تو نظر آئیں گے۔

اگر کوئی جماعت سمجھتی ہے کہ اس کو دوسروں پر انگلی اٹھانے کا حق ہے تو پھر اس کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہو گا۔ کوئی بھی جماعت اس طرح کے الزامات سے مبرا نہیں اور اگر اس کی ایک انگلی دوسروں کی طرف اشارہ کر رہی ہے تو چار انگلیاں ان کے اپنے کارناموں پر اسے متنبہ بھی کر رہی ہیں۔ اگر کسی کو اپنے مینڈیٹ کے احترام کا حق ہے تو دوسرے کے مینڈیٹ کی تعظیم بھی اس کی جمہوری ذمہ داری ہے۔

جہاں تک انتخابات میں بد انتظامی کے خدشات کا تعلق ہے تو اس کی ذمہ داری جہاں الیکشن کمیشن پر آتی ہے وہیں سیاسی جماعتیں اور تعینات اہلکار بھی اپنے آپ کو ان کے ارتکاب سے بری الذمہ نہیں قرار دے سکتے۔ سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ کہ جہاں سے وہ جیتے ہیں وہ شفاف ہے اور جہاں سے وہ ہار رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں، بھی مناسب نہیں ہے۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنے اپنے صوبے میں ایسے ہی الزامات، مطالبات، مظاہروں اور دھرنوں کا سامنا ہے۔ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کو انتخابات بارے تحفظات ہیں اور کچھ دنوں تک پی ٹی آئی کو حکومتی انتظامات مل جائیں گے تو ان مطالبات کا سامنا ان کے انتظامی امور کو کرنا پڑے گا۔ اسی طرح سندھ میں بھی پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام احتجاج کر رہی ہیں اور پنجاب میں بھی ایسی ہی صورت حال موجود ہے جس میں پی ٹی آئی سراپا احتجاج ہے۔ اس صورت حال میں سب کو تدبر کے ساتھ آئینی و قانونی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے پختگی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی مثالیں قائم کرنی چاہئیں جن سے نہ تو ریاست کا امن خراب ہو اور نہ ہی عوامی مینڈیٹ کی توہین کو خواہ مخواہ مبالغہ آرائی اور روایتی سیاسی بیانیوں کی نذر کر کے عوام میں مزید تذبذب کو بڑھایا جائے۔

عالمی سطح پر حالیہ انتخابات کے بعد ہماری سیاست پر جو تبصرے کئے جا رہے ہیں وہ بھی انتہائی قابل تشویش ہیں۔ سیاست اور جمہوریت کے نام پر عوام، اداروں، سیاسی جماعتوں اور ریاست کے درمیان ایک واضح تقسیم کا تاثرملتا ہے جس سے ہمارا قومی تشخص بدحال ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عالمی سطح پر ہماری ساکھ بحال اور تعلقات مضبوط ہوں تو ہماری سیاسی جماعتوں، اداروں اور عوام کو اپنے طرز عمل پر توجہ دے کر اپنی اپنی اصلاح کرنا ہو گی۔ اگر انہوں نے اپنا طرز عمل اور رویے نہ بدلے تو بعید نہیں کہ عوام ان سے مایوس ہو کر انہیں مسترد کر دیں جیسا کہ کئی سیاسی شخصیات کے ساتھ حالیہ انتخابات میں ہوا بھی ہے۔