کیا چینی چوروں کو مور پڑ سکیں گے؟

کیا چینی چوروں کو مور پڑ سکیں گے؟
اگر ملکی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ مملکت خدادا کے باسیوں کے لئے نہ تو کسی دور میں کوئی خود ساختہ بحران نیا تھا اور نہ ہی بحران کے آڑ میں ارب پتی مستحقین کی جھولیوں کو حکومتی سبسڈی سے بھرنا کوئی نیا طرزعمل تھا۔ جب عمران خان کی حکومت آٹا اور چینی بحران کا سامنا کرنے کے بعد اس کی تحقیقاتی رپورٹ کو منظرعام پر لائی تو یہ عمل نہ صرف عوام کے لئے متاثرکن تھا بلکہ تبدیلی کے منتظر صابرین کے لئے بھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔ مانا کہ رپورٹ کو منظر عام پر لانے میں کافی تاخیر ہوئی لیکن تنقید کرنے والے شاید یہ بھول گئے کہ اس قسم کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کی روایت بھی تو پہلے کبھی نہیں رہی؟

رپورٹ بھی اس قسم کی جس پر نہ صرف حکومت کے اپنے رفقا اور حواریوں کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہوں بلکہ اس کا اپنا دامن بھی اس کی غبار سے گرد آلود ہوتا نظر آتا ہو۔ اب کوئی مانے نہ مانے بلاشبہ یہ حکومت کی طرف سے ایک قابل تحسین عمل ہے۔

مانا کہ مفاد پرستوں کو کیفر کردار تک پہنچتے دیکھنے کی حسرت رکھنا بھی ابھی کچھ قبل ازوقت ہے۔ وسوسے اٹھ رہے ہیں کہ فرانزک آڈٹ رپورٹ منظرعام پر آنے سے قبل کہیں خان صاحب کے اردگرد بیٹھنے والا ٹولہ ان کو اس سنگین ’غلطی‘ کا ادراک نہ کروا بیٹھے۔ اندیشہ یہ بھی ہے کہ کہیں اس رپورٹ کے پیچھے کی نیت احتساب کرنے کی بجائے حکومتی پارٹی کے اندرونی چقتلش کا شاخسانہ نہ ہو کیونکہ دیکھنے میں تو یہ بھی نظر آتا ہے کہ جماعت کے ایک گروہ نے دوسرے گروہ کو چاروں شانے چت کر کے شادیانے بجانا شروع کر دیے ہیں۔



لیکن امید کا دامن ابھی بھی کافی خوشنما نظر آتا ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنے کے لئے کچھ سر پھرے یہ بے پر کی اڑا رہے ہیں کہ رپورٹ کے پیچھے مطلق العنان ادارے کی شیطانی کار فرما ہے جبکہ دیگر نابالغوں کی نظر میں یہ سازش کورونا وائرس کے دوران برتی جانے والی حکومتی عفلتوں سے توجہ بٹانے کے لئے کی گئی ہے۔ گویا جتنے منہ اتنی باتیں سرگرداں ہیں۔

خیر جو چیز یہاں قابل استفسار ہے وہ یہ کہ ایف آئی اے کی اس رپورٹ نے جہاں خان صاحب کے پیروکاروں کو اپنے مخالفین کے آگے بغلیں بجانے کا بھرپور موقع دیا ہے وہاں حکومت کے اگلی قطار پر براجمان بہت سے حضرات جانے کیوں ابھی بھی آئیں بائیں شائیں کر کے داد لینے سے گریزاں ہیں؟

ٹی وی سکرینز پر بیٹھے طنز و تنقید کے نشتروں سے مسلح پنڈتوں کی تو اس رپورٹ پر آنکھیں کھلنے کی بجائے، منہ نسبتاً زیادہ کھل چکے ہیں۔ جانے کیوں ٹی وی پنڈت ابتدائی رپورٹ کے بعد اس قابل تحسین عمل کے بخیے ادھیڑتے ہوئے، وزاتوں میں رد و بدل اور استعفے کی خبروں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس تناظر میں پھانسی گھاٹ سے کوئی خوش خبری سننے کے متمنی ہیں۔

شاید ہمیں اب آٹے چینی بحران کی اس ابتدائی رپورٹ پر کسی کے خلاف کارروائی کی امید رکھنے کی بجائے اس اعلیٰ سطحی کمیشن کے مفصل فرانزک آڈٹ کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے جس کے بعد خان صاحب کو ان کے اپنے وعدے کی یاد دہانی بار بار کرائی جا سکتی ہے کہ وہ فرما چکے ہیں کہ ’نتائج کے سامنے آنے کے بعد کوئی بھی طاقتور لابی عوامی مفادات کا خون کر کے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گی‘۔

اس اچھی امید کے ساتھ ہم دعا بھی کر سکتے ہیں کہ خان صاحب اس فیصلہ پر اتنے ثابت قدم رہیں کہ نہ تو انہیں نواز شریف کی طرح یہ کہنا پڑے کہ ’کرپشن اتنی زیادہ ہے اگر تحقیات میں پڑے تو کام کون کرے گا‘ اور نہ ہی انہیں چوہدری شجاعت صاحب کی ’مٹی پاؤ‘ پالیسی کی طرف رجوع کرنا پڑے۔ عوام خان صاحب کو اس مفاد پرست ٹولے کی زرداری صاحب کے برعکس ’اینٹ سے اینٹ بجا کر‘ بغیر مائیک گرائے حبیب جالب صاحب کے شعر گنگناتے سننا چاہتی ہے۔ جس کے جواب میں وہ بھی ایک پر امید نعرہ بلند کر سکیں کہ ’تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے‘۔

لکھاری ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔