اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ 11 اکتوبر 2018 کے نوٹی فکیشن کے خلاف ان کی درخواست پر فیصلہ سنائیں جس کے تحت انہیں ہٹا دیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق 6 صفحات پر مشتمل درخواست میں سابق جج نے عدالت عظمیٰ سے نوٹی فکیشن معطل کرنے کی درخواست بھی کی۔
آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں متنازع تقریر کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی سفارش پر انہیں اعلی عدالتی آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔
تقریر میں سابق جج نے عدلیہ کے امور میں ریاست کے ایک ایگزیکٹو آرگنائزیشن کے مخصوص افسران خاص طور پر انٹر سروسز انٹلی جنس کے ملوث ہونے اور ہائی کورٹ کے بنچوں کی تشکیل کے لیے ان کی مبینہ کوششوں کے خلاف ریمارکس دیے تھے۔
ان کے وکیل حامد خان نے 9 دسمبر 2020 کو بھی سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ اگلی 30 جون سے پہلے ان کی درخواست پر فیصلہ سنائیں- جس تاریخ کے بعد جب وہ اپنے عہدے پر رہتے تھے تو وہ ریٹائر ہوجائیں گے۔
30 نومبر کو بھی جسٹس شوکت صدیقی نے چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کو 2 صفحات پر مشتمل خط لکھا تھا جس میں درخواست پر سماعت مقرر کرنے کی اپیل کی گئی۔
سپریم کورٹ رولز 1998 کے آرڈر 33 رول 6 کے تحت سابق جج کی تازہ درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ 11 اکتوبر 2018 کا نوٹی فکیشن معطل کردیا جائے۔
درخواست میں بتایا گیا کہ کہ 28 جنوری 2021 کو سپریم کورٹ نے ان کے کیس کی سماعت فروری 2021 میں شروع کرنے کے ریمارکس دیے تھے کہ لیکن ایسا نہیں ہوا جس کے نتیجے میں انہوں نے اسی طرح کی ایک اور درخواست دائر کی۔
سابق جج شوکت صدیقی نے اپنی درخواست میں واضح کیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کو دوسرے خط میں جلد از جلد مقدمہ کی سماعت کی درخواست کی گئی۔
درخواست میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے ان کی برطرفی کے بعد سے وہ لاکھوں دیگر شہریوں کی طرح ملازمت سے محروم ہیں۔
علاوہ ازیں درخواست میں کہا گیا کہ یہ ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصول ہے کہ انصاف میں تاخیر سے انصاف کی تردید ہوتی ہے۔