نام نہاد سیاسی غیر جانبداری کی ٹوپی سے جو طلسماتی خرگوش برآمد کیا گیا تھا آج تقریباً ایک سال کا ہو چکا ہے۔ کیوں نہ اس سارے منظرنامے کو ریکیپ کرتے ہوئے اسے خلاصے کی شکل میں پیش کیا جائے۔ معذرت کے ساتھ آج قومی اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد سے پہلے پچھلے پورے ایک سال میں کچھ زیادہ نہیں بدلا تھا اور پچھلا سارا سال اس روایتی دستیاب سیاسی قیادت اور کچھ تجزیہ نگاروں کی خوش فہمیوں، کوتاہ فہمیوں یا سودے بازیوں، سہل پسندیوں، کم ہمتیوں اور پیپلز پارٹی کی قلابازیوں کا قصہ مختصر ہے۔ آج بھی سیاست دان اپنی وہی روایات دہرا رہے ہیں جن میں ہمیشہ انہیں مکا لڑائی کے بعد یاد آتا ہے اور پہلے سے للکارنے کے بجائے جب اسٹیبلشمنٹ ان کی گردن اپنے آہنی شکنجے میں پوری طرح کس لیتی ہے تو یہ لوگ ہاتھ پاؤں مارنا اور چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں۔
میں آج بھی اپنے اس مؤقف پر قائم ہوں کہ ٹھوس ضمانت اور زمینی حقائق کو دیکھے بغیر پی ڈی ایم کو اسٹیبلشمنٹ کی نام نہاد نیوٹریلٹی، جو محض اشاروں کنایوں پر مبنی تھی، کی چال میں آ کر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لا کر حکومت نہیں لینی چاہئیے تھی۔
جب عدم اعتماد لانے میں چار پانچ مہینوں کا وقت لگ گیا اور پی ٹی آئی کو سیاسی بیانیہ بنانے اور تحریک چلانے کے لیے بھرپور وقت مل گیا تو پی ڈی ایم کو اسی وقت خطرہ بھانپ لینا چاہئیے تھا۔ یا پھر اس وقت سمجھ جانا چاہئیے تھا جب سپریم کورٹ نے رات 12 بجے عدالت لگا لی تا کہ محض جنرل باجوہ کی ممکنہ برطرفی، ڈپٹی سپیکر کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پر غیر آئینی رولنگ کے ذریعے رائے شماری سے انکار اور وزیر اعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کی غیر آئینی تحلیل کے حکم کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر واپس کر سکے۔ سپریم کورٹ نے اس وقت آئین شکنی کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی قانونی اقدام نہیں اٹھایا تھا۔ ہم نے اس وقت بھانپ کر انہی صفحات میں لکھ دیا تھا کہ نیوٹریلٹی شیوٹریلٹی کوئی چیز نہیں، بس حالات کا تقاضا ہے کہ 10 سالہ پروجیکٹ کے سکرپٹ میں ردوبدل کر کے بعض ناکام ہو جانے والے کرداروں کو بدل کر بیچ میں مہمان اداکار لا کر فلم کو رواں دواں رکھا جائے۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ عمران خان لیڈر نہیں بلکہ مہرہ تھا اور اسے مصنوعی طریقوں سے پاپولر قرار دے کر مسیحا بنایا گیا تھا۔ اس کی مقبولیت آج بھی مصنوعی ہے اور اس کو برقرار رکھنے کیلئے آج بھی منظم انداز میں مہم چلانے کیلئے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی لیڈر یا جماعت کو ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک میڈیا کی جانب سے باجماعت اور مسلسل کوریج اور پذیرائی نہیں ملی سوائے عمران خان کے۔ عمران خان کئی سالوں سے میڈیا کا چہیتا ہے اور آج بھی اسے مسلسل کوریج مل رہی ہے۔ یہ اسی بے دریغ میڈیا کوریج کا نتیجہ ہے کہ ایک اوسط ذہن کا انسان جس کی پوری زندگی رنگینیوں میں گزری جس کا اعتراف اس نے خود کئی موقعوں پر کیا اور وہ انسان جس کا مذہبی و سماجی اخلاقیات سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں، دیوتا سمجھا جانے لگا۔ اوروں کو ناکردہ گناہوں پہ سزائیں سنائی گئیں اور اس کے کردہ گناہوں کو بھی گناہوں کی فہرست سے نکال دیا گیا۔
یہاں تک کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اس قسم کے انسان کو صادق اور امین قرار دے دیا۔ آج بھی ناجائز جنسی تعلقات کے نیتجے میں پیدا ہونے والی بچی ٹیریان وہائٹ کو چھپانے کے مقدمے میں جج اس کے حق میں دلائل نما ریمارکس دیتے ہیں۔ علی ھذ القیاس کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ آج بھی اس کو مکمل تحفظ فراہم کر رہا ہے اور یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ یہ وہ جج ہیں جو اسٹیبلشمنٹ نے اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے تھوک کے حساب سے اعلیٰ عدلیہ میں لا کربٹھائے ہیں۔ ان کی کیا مجال کہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارہ ابرو کو درخور اعتنا نہ سمجھیں اور ان کے حکم سے چشم پوشی کریں؟ اسی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر یہ اپنے برادر ججز جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے برادران یوسف بن گئے تو عمران خان کی ان کے سامنے کیا حیثیت ہے؟ یہ جج اتنے بھی بچے نہیں ہیں کہ صرف اپنے خاندان کے دباؤ میں آ کر اصل اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھا سکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ واقعی سیاسی طور پر غیر جانبدار ہو چکی ہے؟ کل کا پتہ نہیں مگر اب تک تو تمام حالات و واقعات کو ذہن میں رکھ کر جواب نفی میں بنتا ہے۔ وہی اردو محاورے والی بات کہ 'گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟' اسٹیبلشمنٹ سات دہائیوں کے عرصے پر پھیلی بلا احتساب حکمرانی کی روایت سے اتنی آسانی کے ساتھ کیسے دستبردار ہو سکتی ہے؟
دوسرا سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے؟ تاریخی اور زمینی حقائق اس خدشے کی بھی نفی کرتے ہیں۔ اگر منطقی طور پر دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کی مرکزی طاقت یا ریڑھ کی ہڈی فوج ہی ہے اور فوج کی طاقت اس کے ڈسپلن اور چین آف کمانڈ میں ہے۔ یہ وہی فوج ہے جو اس بات پر فخر کرتی ہے کہ چیف فوج ہے اور فوج چیف، فوج کے تمام رینک اینڈ فائل اسی طرف دیکھتے ہیں جس طرف چیف دیکھتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس فوج کے رینک اینڈ فائل میں موجود بعض لوگ آج بھی کچھ ریٹائرڈ آفیسروں کے اشاروں پر چلتے ہیں؟ پاکستانی فوج کے بطور ادارہ ملک کی سیاست اور معیشت سے وابستہ مفادات کو دیکھ کر عقل و منطق اس استدلال کو بھی مسترد کرنے پر مائل ہے۔
اب ہمیں اس مخمصے کا منطقی جواب ڈھونڈنے کیلئے اپریل 2022 سے پہلے والے سیاسی و معاشی حالات کا جائزہ لینا ہوگا۔ 2 سال تک حکومت میں رہنے کے بعد 'پروجیکٹ عمران' کے معماروں کو اپنے شاہکار کی ناکامی کا احساس ہونا شروع ہو گیا تھا۔ معماروں کا یہ مغالطہ تو شروع ہی میں زمین بوس ہو گیا کہ دنیا کے سامنے عمران خان کو جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کے طور پر پیش کر کے اسٹیبلشمنٹ 2018 کے الیکشن پر لگے اپنے ملوث ہونے کے نقوش چھپا سکے گی۔ مگر ہوا یوں کہ انتخابات کے بعد پہلے ہی ہفتے میں عالمی، خصوصاً مغربی میڈیا نے ان کے انتخاب پر سوال اٹھانا شروع کر دیے تھے۔ یورپی یونین کے الیکشن آبزرور مشن نے اپنی روایات سے ہٹ کر پہلی مرتبہ کھل کر 2018 کے الیکشن پر اپنے تحفظات جاری کر دیے تھے۔
اسٹیبلشمنٹ کی دوسری خوش فہمی یہ تھی کہ عمران خان دنیا خصوصاً بیرونی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں سے پیسہ اکٹھا کر کے پاکستان واپس لائے گا۔ لیکن عمران خان نا صرف اس محاذ پر بری طرح ناکام ہوا بلکہ پاکستان کو پہلے سے درپیش سفارتی تنہائی کو مزید گہرا کر کے اہم ممالک کے ساتھ اپنے رویے کی وجہ سے سفارتی تعلقات تباہ و برباد کر دیے۔ اس نے یوتھیوں اور ففتھیوں کا پروپیگنڈا سچ مان کر اپنے آپ کو عالم اسلام کا خود ساختہ لیڈر سمجھ لیا اور عالمی لیڈروں کے ساتھ بالکل اسی طرح ڈیل کرنے لگا جیسے وہ مراد سعید، شہباز گل اور فواد چودھری کو ڈیل کرتا تھا۔ علاوہ ازیں اس نے ملکی سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کے بجائے اسے اور بڑھا کر پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچا دیا۔ موصوف کو خود کچھ اتا پتا تھا اور نہ وہ کسی اور کی سنتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پونے چار سالوں میں محض دو ہی کام تندہی کے ساتھ کیے؛ ایک اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں پر دھڑا دھڑ مقدمے بنا کر انہیں جیلوں میں ڈالنا، دوسرا آزاد صحافت کا گلہ گھونٹنا اور پروپیگنڈا فیکٹری کو چالو رکھنا۔
اس سب کا نیتجہ یہ نکلا کہ صرف حکومت ہی کا نہیں بلکہ ریاست کا بھی چلنا محال ہو گیا اور اس سب کا ملبہ عمران خان سے زیادہ فوج پر گر رہا تھا۔ سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ عوام کے سامنے خصوصاً پنجاب میں فوج کا امیج بری طرح خراب ہونے لگا۔ تمام تر ریاستی چیرہ دستیوں اور میڈیا پروپیگنڈا کے باوجود عوام اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں سے نکل گئے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان دونوں کے امیج تقریباً زمین بوس ہو گئے تھے۔ شاید اسٹیبلشمنٹ کو یہ بھی اندازہ تھا کہ اگر عمران خان حکومت مزید ایک سال تک چلتی رہی تو معاشی تباہی اور اس کے نیتجے میں آنے والا مہنگائی کا طوفان سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ پچھلے ایک سال میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے لیکن کیا ہم ان حالات کا تصور کر سکتے ہیں کہ اگر آج تک عمران خان کی حکومت رہتی تو کیا صورت حال ہوتی؟ اگر پی ڈی ایم خصوصاً ن لیگ کی جانب سے اپنا تمام تر سیاسی اثاثہ داؤ پر لگا کر اور عالمی تعلقات بروئے کار لانے کے بعد بھی ملک کا یہ حال ہے تو سوچیں کہ ایک نا اہل اور عالمی تنہائی کی شکار حکومت کے ہوتے ہوئے اب تک ملک کا کیا حشر ہو چکا ہوتا۔ ان حالات میں اگر جنرل فیض آرمی چیف بنتا اور عمران خان کو آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت دلا کر دوبارہ منتخب کروا دیتا تو کیا اب کی بار عمران خان کی حکمرانی کا انداز پہلے سے مختلف ہوتا؟
جب یہ حالات درپیش ہوئے تو عدم اعتماد کی چال چلی گئی اور چند مہینوں میں اسٹیبلشمنٹ مائنس جنرل باجوہ و جنرل فیض اور عمران خان دونوں کے سارے گناہ دھل گئے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان دونوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ نواز شریف کا بیانیہ اور پنجاب میں مستحکم ہوتا اور مزید بڑھتا ہوا ن لیگ کا ووٹ بینک تھا جو اب ایک لولی لنگڑی حکومت قبول کرنے کے ایک سال بعد بہت حد تک نیوٹرلازڈ اور کنفیوژڈ نظر آ رہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ اگر یہ حزب اقتدار کو دائیں ہاتھ میں رکھتی تھی تو حزب اختلاف اس کے بائیں ہاتھ میں ہوتی تھی لیکن جب بدلتے حالات کی وجہ سے یہ طریقہ مزید دیر تک قابل عمل نہ رہا تو شاید اس مقصد کیلئے دھڑے بندی کا سکرپٹ لکھا گیا۔ ورنہ ریٹائرڈ جرنیلوں کی اتنی مجال کہاں کہ روپوش رہ کر عمران خان کی حمایت جاری رکھ سکیں!
شہباز شریف کو یہ یاد رکھنا چاہئیے تھا کہ نواز شریف کا 'کنگز پارٹی' کے ایک لیڈر سے قومی لیڈر بننا مصلحت سے زیادہ مزاحمت کا نیتجہ ہے ورنہ مصلحت میں چودھری برادران میاں برادران سے زیادہ تیز طرار ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی مقبول عوامی لیڈر نہیں بن سکا۔ اگر ن لیگ مزید ایک سال تک مزاحمتی سیاست جاری رکھتی اور اس کے ذریعے مسند اقتدار حاصل کرتی تو آج یہ خود کٹہرے میں نہ کھڑی ہوتی بلکہ اب تک اسٹیبلشمنٹ کو کٹہرے میں کھڑا کر چکی ہوتی۔
آج پی ڈی ایم نے جو کچھ پارلیمنٹ میں کیا، انہیں یہ پچھلے سال مئی میں ہی کر لینا چاہئیے تھا لیکن تب پی ڈی ایم کو نومبر اور آئی ایم ایف کا انتظار تھا اور اب ستمبر کا۔ پشتو کا ایک شعر ہے؛
'د چا د ژوند هره لحځه چی انتظار شی د چا
د هغی ژوند په صبا بیګا دی اوور ولګی'
جس کا مطلب ہے؛
جس زندگی کا ہر لمحہ کسی کے انتظار میں گزرے،
اس زندگی کے شب و روز کو آگ لگا کر جلا دینا ہی بہتر ہے
یہ بات شدید تکلیف دہ ہے کہ جنہوں نے یہ سب کچھ کر کرا کر ملک میں گند ڈالا ہے آج وہ پھر سے ایمپائر بنے بیٹھے ہیں۔