سوشل میڈیا پر کچھ ہی عرصے میں چھا جانے والی ایپ ٹک ٹاک کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے جہاں سے دنیا میں سب سے زیادہ ویڈیوز کو نازیبا مواد ڈالنے کی وجہ سے ایپ سے ہٹایا گیا ہے۔
اپنے مواد کو ہٹانے کی پالیسی اور طریقہ کار سے متعلق جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں چینی کمپنی کی بنائی گئی ایپ ٹک ٹاک نے بتایا کہ پاکستان ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے جہاں خطرناک یا نامناسب مواد کو ٹک ٹاک پر سے سب سے زیادہ ہٹایا جاتا ہے۔
یہ رپورٹ انہوں نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کی جانب سے گذشتہ ماہ ایک تنبیہ کے بعد جاری کی ہے جس میں پی ٹی اے نے انہیں غیر اخلاقی، فحش اور بیہودہ مواد ایپلکیشن پر سے ہٹانے کو کہا تھا۔
جمعرات کو جاری کردہ بیان میں کمپنی نے کہا کہ یہ تمام ویڈیوز میں اپلوڈ کیے جانے والے مواد کو چیک کرنے کے لئے ایک مکمل نظام رکھتی ہے، جس میں نہ صرف مختلف معاملات پر واضح پالیسیاں شامل ہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور متنازع مواد اور اسے پھیلانے والے اکاؤنٹس کو چیک کرنے اور ان پر مناسب کارروائی کا ایک بھرپور طریقہ بھی اس کا حصہ ہیں۔
اپنے مواد اور پالیسیوں میں شفافیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اعلامیے میں کہا گیا کہ اس پورے نظام کے بارے میں بتانے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ پاکستان سے اپلوڈ کیا جانے والا نامناسب اور خطرناک مواد جو ٹک ٹاک پر رپورٹ کیا جائے، اسے ہٹانے کا ایک مؤثر طریقہ کار موجود ہے۔
ٹک ٹاک گذشتہ کچھ ہی عرصے میں اپنی 15 سے 60 سیکنڈ تک کی ویڈیوز کے باعث دنیا بھر میں ایک کامیاب ایپ بن چکی ہے، اور پاکستان میں بھی یہ سروس انتہائی مقبول ہے جس پر کچھ صارفین لاکھوں کی تعداد میں اپنے مداح رکھتے ہیں۔
اپنے اعلامیے میں کمپنی کا کہنا تھا کہ جہاں صارفین ٹک ٹاک پر مواد اپلوڈ کرنے کی سہولت سے استفادہ کرتے ہیں اور اس کی ویڈیوز سے خاصے محظوظ بھی ہوتے ہیں، وہیں ان کے اس تجربے کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات اٹھانا بھی ضروری ہے۔ ٹک ٹاک انتظامیہ نے مزید کہا کہ اس نے آن لائن ایپ کے لئے اردو زبان میں ایک قواعد کی فہرست بھی مرتب کی ہے جو کہ پاکستانی صارفین کے لئے سمجھنے میں آسان ہوگی تاکہ وہ پاکستان میں ایک اچھے ماحول میں ٹک ٹاک کو استعمال کر سکیں۔
’’یہ قواعد صارفین کو بتاتے ہیں کہ ایپ پر کیا چیز اپلوڈ کی جا سکتی ہے اور کیا نہیں۔ اس کا مقصد ٹک ٹاک کو ایک محفوظ ایپ بنانا ہے جس میں عام صارفین اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو قاعدے قانون کے تحت بروئے کار لاتے ہوئے ویڈیوز بنائیں۔
ٹک ٹاک ایسی تمام ویڈیوز کو ہٹا دیتا ہے جو اس کے قواعد کے مطابق نہ ہوں اور ایسے اکاؤنٹس جو بار بار غیر مناسب مواد اپلوڈ کرتے ہیں، انہیں معطل یا بند بھی کر دیتا ہے۔
ٹیکنالوجی
ٹک ٹاک میں ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے جو نامناسب مواد کو خودکار طریقے سے flag کر دیتی ہے، یعنی اس کی ٹیموں کو فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ کسی ویڈیو میں کوئی قواعد سے ہٹ کر بات کی گئی ہے۔ اور پھر یہ ٹیمیں فوراً اس پر کارروائی کرتی ہیں تاکہ دیکھنے والوں کا تجربہ پراگندہ نہ ہو۔
اسی نظام کے ذریعے ٹک ٹاک کو ایسی حرکات اور متواتر قواعد کی خلاف ورزی کرنے والے اکاؤنٹس کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔
مواد کو چیک کرنے کا عمل
ٹک ٹاک انتظامیہ کے مطابق مواد کی پڑتال کا سارا کام محض ٹیکنالوجی کے ذریعے نہیں کیا جاتا بلکہ اس کام کے لئے ایک سیکھے ہوئے ماڈریٹرز کی پوری ٹیم موجود ہے جو کہ اس مواد کو دیکھتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کبھی کبھار یہ ٹیمیں ایسے مواد کے خلاف بھی کارروائی کر دیتی ہیں جن میں ممکنہ خطرہ موجود ہو، مثلاً ایسی پوسٹس جن میں کوئی خطرناک چیلنج کیا گیا ہو یا کوئی ایسی غلط اطلاعات دی گئی ہوں جو کہ عوام میں پھیلنے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہو۔ اس کے علاوہ ایسے مواد کو بھی چیک کیا جاتا ہے جو دیگر صارفین کی جانب سے رپورٹ کیا گیا ہو۔ ایپ کے اندر ہی رپورٹ کرنے کا ایک آسان طریقہ موجود ہے جو کہ کسی بھی ایسے مواد کو چیک کرنے کے لئے انتظامیہ کو بھیجنے کی سہولت دیتا ہے جو دیکھنے والے کے نزدیک نامناسب ہو۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ پی ٹی اے نے ٹک ٹاک کو ایک آخری وارننگ دی تھی کہ یہ اپنے پلیٹ فارم سے ایسا مواد ہٹائے اور مستقبل میں ہٹانے کا واضح طریقہ کار بھی وضع کرے جو کہ نامناسب مواد کو ہٹا سکے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آن لائن مواد پر، اور ویب سائٹس پر بے انتہا پابندیاں موجود ہیں۔ اسی سال جاری ہونے والی فیسبک اور ٹوئٹر کی رپورٹس یہ بتا چکی ہیں کہ انہیں سب سے زیادہ مواد اور اکاؤنٹس اپنے پلیٹ فارم سے ہٹانے کی درخواستیں پاکستانی حکومت کی جانب سے موصول ہوئیں۔ اس سے قبل پاکستان میں متعدد مرتبہ فیسبک پر بھی پابندی لگ چکی ہے جب کہ 2012 میں یوٹیوب پر گستاخانہ مواد کے باعث پابندی عائد کی گئی تھی جو کہ کئی سال تک جاری رہی تھی۔
رواں سال کے آغاز میں بھی پیمرا کی جانب سے اچانک ایک مسودہ تیار کر کے اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیا گیا تھا جس کے تحت یوٹیوب، فیسبک اور ٹوئٹر سمیت متعدد سوشل میڈیا ویب سائٹس کو پابند بنایا جانا تھا کہ وہ پاکستان میں اپنا ایک دفتر کھولیں اور بھاری رجسٹریشن فیسیں بھی جمع کروائیں لیکن اس پر شدید احتجاج اور ان تین بڑے پلیٹ فارمز کے صاف انکار کے بعد وزیر اعظم کو کابینہ کا فیصلہ واپس لے کر اس پر نظرِ ثانی کرنا پڑی تھی۔
2019 میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو پی ٹی اے نے بتایا تھا کہ پاکستان میں 9 لاکھ سے زائد URL پابندی کا شکار ہیں جن میں گستاخانہ مواد، پورنوگرافی اور ریاست، عدلیہ اور افواج کے خلاف مواد موجود تھا۔