ایاز امیر صاحب، دوبارہ لکھنا شروع کریں مگر انگریزی میں!

ایاز امیر صاحب، دوبارہ لکھنا شروع کریں مگر انگریزی میں!
وطن عزیز میں آج کل ہر طرف سے بری خبریں ہی مل رہی ہیں۔ آج کل تو کیا ہمیشہ سےایسی ہی خبریں ملتی رہی ہیں۔ تازہ ترین یہ کہ ہمارے ہر دلعزیز لکھاری ایاز امیر نے کالم لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ ایسا انہوں نے احتجاجاً کیا ہے۔ روزنامہ دنیا نے انکے ایک دو کالم نہیں چھاپے۔ کوئی وجہ ہو گی۔ یہ بات انہیں اچھی نہ لگی۔ کسی کو بھی نہ لگتی۔ لہذا انہوں نے مزید لکھنے سے انکار کر دیا۔ مایوسی میں مزید اضافہ ہوا۔

پہلی مایوسی انکے حوالے سے تب ہوئی جب چند برسوں قبل انہوں نے انگریزی میں لکھنا چھوڑ دیا تھا اور اردو کالم نگاری میں طبع آزمائی شروع کی۔ یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ انگریزی زبان پر انکا عبور کسی بھی بہترین انگریزی دان سے ہر گز کم نہیں۔ بلکہ زیادہ ہی ہو گا۔ ہمیں تو ان کی انگریزی میں شیکسپیر اور جین آسٹن والا ذائقہ محسوس ہوا۔ انگریزی میں کالم نہ لکھنے والا قصہ کچھ یوں ہے کہ جب یہ قومی اسمبلی کے ممبر بنے تو ڈان اخبار نے انکے کالم شائع کرنے سے یوں انکا ر کیا کہ غیر جانبداری پر انگلی نہ اٹھے۔ یہ مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اپنی ہی جماعت پر دھڑلے سے تنقید بھی کرتے تھے اپنے کالموں میں ۔ پر اخبار نے اپنی پالیسی پر بہرحال عمل کرنا ہی تھا۔

جنگ اور دی نیوز وغیرہ کا کوئی دین ایمان تو ہے نہیں۔ سب ہی کچھ چھپتا ہے سو دی نیوز نے انکے کالم چھاپنا شروع کر دیے۔ بہت ہی اعلی درجے کا اردو ترجمہ ان ہی کالموں کا جنگ میں بھی چھپنے لگا۔ پشاور میں کوئی انتہائی قابل خاتون تھیں جو یہ ترجمہ کیا کرتی تھیں۔ اس طرح انکے کالم بیک وقت اردو اور انگریزی میں چھپنے لگے۔ انکے چیدہ چیدہ ڈان کالم روزنامہ خبریں بھی رضاکارانہ طور پر اردو میں ترجمہ کر کے چھاپتا رہا۔ لیکن جنگ سب سے زیادہ چھپتا ہے لہذا اس کے توسط وہ قاری جو انگریزی سے ناواقف تھے یا انگریزی میں لکھی چیز آسانی سے نہیں پڑھ سمجھ سکتے تھے بھی انکے خیالات سے مستفید ہونے لگے۔ جنگ اور دی نیوز کی موقع و مصالحت پرست پالیسی پر ان کے چند کالم پورے نہ اترے اور یا تو بالکل ہی نہیں چھپے یا کانٹ چھانٹ کے عمل سے گذر گئے۔ یہ انہیں قبول نہ تھا۔ ہمیں بھی نہ ہوتا۔ انہوں نے دی نیوز اور جنگ سے بھی کنارہ کشی اختیا ر کر لی اور روزنامہ دنیا جسے اب یہ طلاق دے چکے ہیں سے وابستہ ہو گئے۔

ہماری ان سے دوستی بہت پرانی ہے قریب بیس برس سے زیادہ ہی ہے۔ کئی بار ہم نے فون پر درخواست کی کہ خدا را انگریزی میں ہی لکھیں مگر یہ کب کسی کی سنتےہیں۔ بولے کہ اب کالم کون پڑھتا ہے۔ ہم نے جواب دیا کہ پڑھنے والے ہی پڑھتے ہیں۔ پھر بولے کہ اب کوئی ڈھنگ کا کالم تو چھپتا ہی نہیں۔ سارے اخبار بیس منٹ کے اندر اندر کنھگال دیتا ہوں۔ ہم نے عرض کیا کہ حضور جب آپ جیسے لوگ لکھنا چھوڑ دیں گے تو میدان جاہلوں ہی کیلئے خالی پڑا ہو گا سو وہ ہی قابض ہوں گے۔ ہر شاخ پہ الو بیٹھے گا۔ 'اچھا شروع کرتے ہیں!' یہ کہہ کر تسلی دے دیتے تھے۔ اس جملے کا مطلب ہے 'کبھی نہیں!'

انکا انگریزی کا قاری تو کبھی بھی ان کے اردو کالم کا مداح ہو ہی نہیں سکتا تھا بشمول ہمارے۔ ہم تو ان کے سب سے بڑے پرستار ہیں۔ لیکن اردو کا کالم ان ہی کے انداز میں دل ہی دل میں انگریزی میں ترجمہ کر کے محظوظ ہوتے رہے۔ پھر نہ جانے کیوں انہوں نے ایک ہی موضوع کا دامن پکڑ لیا اور کسی کلاسیکل گویے کی طرح اس ہی کا پلٹہ دن رات رٹنہ شروع کر دیا۔ وہ پلٹہ تھا پاکستان میں شراب پر پابندی کیوں ؟ شراب کے حوالے سے ان کا حال کچھ ایسا ہی تھا جیسا ان حضرا ت کا ہے جن کے خاکے مشتاق یوسفی صاحب نے اپنی معرکتہ آرا کتاب آب گم میں لکھے۔ ماضی پرست، مازی زدہ!

بار بار پڑھ کر ہمیں بھی کوفت ہونے لگی۔ ایسا لگا کہ وطن عزیز میں اگر شراب سے پابندی اٹھا لی جاوے تو سب کی سب برائیاں خود بخود جڑ سے اکھڑ جائیں گی۔ بیزار ہو کر ہم نے ان کا کالم پڑھنا چھوڑ دیا۔ ایک وجہ اور بھی تھی۔ ان کا کالم تو انگریزی کا مزہ لینے کے لئے پڑھتے تھے۔ یہی بات کل بزرگ دوست جناب اظہار الحق سے بھی ہوئی۔ ان کا بھی یہ ہی خیال تھا کہ انہیں صرف انگریزی ہی میں لکھنا چاہیے۔ ہمارا ماننا تو یہ ہے کہ انگریزی میں جملہ اگر کسی نے لکھا تو وہ دو ہی ہیں۔ ایک ایاز امیر اور دوسرے ہمارے دوست جناب سرمد صہبائی۔ اب حاسدین کہیں گے کہ سرمد نے کب لکھا انگریزی میں تو عرض ہے کہ ان سے پوچھیے جنہوں نے پڑھا انہیں انگریزی میں۔ اور اردو میں اگر کسی نے لکھا تو سوائے یوسفی صاحب کے اور کوئی نہیں۔ شیکسپیر اگر آج پیدا ہوتا اور انگریزی میں کالم نگاری کے میدان میں اترتا تو ایاز کا ہی شاگرد ہوتا۔ اور غالب اگر آج جنم لیتا اور فکشن لکھنا چاہتا تو یوسفی صاحب سے گنڈہ بندھوائے بغیرچارہ نہ تھا۔

لہذا ہماری التجا ہے ان سے کہ دوبارہ لکھنا شروع کریں مگر صرف انگریزی میں اور ہر موضوع پر قلم اٹھائیں سوائے شراب کے۔ شراب کو آپ صرف شاعروں کیلئے چھوڑ دیں۔ اور کیا پابندی لگنے سے یہ ناپید ہو ئی؟ پینے والوں کو تو ہر عہد میں اور ہر بندش میں وافر میسر رہی ہے۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔