پاکستان میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اور حکومت کی خاموشی

پاکستان میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اور حکومت کی خاموشی
"آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ ریاستِ پاکستان میں آپ اپنی مسجدوں اور کسی بھی طرح کی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، فرقے یا مسلک سے ہو سکتا ہے۔ جس کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں"

قائدِ اعظم کے وہ الفاظ جنہوں نے آزاد ریاست کے حصول کے وقت بہت سے لوگوں کو آزادی کا احساس دلایا۔ مگروقت گزرنے کے ساتھ یہ الفاظ صرف کتابوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور بعد ازاں وہاں سے بھی معدوم کر دئیے گئے۔

پاکستان کے علاوہ اگر ساری دنیا کی بھی بات کی جائے تویہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مذہبی عداوت دنیا میں بڑھتی جارہی ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ بس ان کے مذہب کو پذیرائی ملے اور باقی سب مذاہب کے لوگوں کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ پھر چاہے ہم بھارت میں ہندو اکثریت کی بات کریں یا فلسطین میں یہودیوں کی یا پھر پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کی ، ہر کوئی اپنی معاشرتی اور اقتداری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کمزور طبقے پر دباؤ ڈالنے میں لگا ہوا ہے۔ جبکہ دیکھا جائے تو مذہبی انتشار ایک پر امن معاشرے کے نظریے کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

پاکستان کی حالیہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان کے اندر مذہبی انتشار تیزی سے بڑھ رہا ہے اور فرقے کے نام پر قتل اور تشدد ہمارے معاشرے کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ چاہے وہ کسی احمدی پر کیا جائے، عیساٰیی یا یہودی پر، پاکستان ایک آزاد ریاست ہے جو ہر مذہب کے لوگوں کے لیے  آئین کے تحت باہمی حقوق فراہم کرنے کی پابند ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب پاکستان کس راہ پر گامزن ہے۔ اسلام اور مسلمان ہونے کے نام پرجو کچھ ہونے لگ گیا ہے اس سے معاشرے میں مذید انتشار پھیلتا جا رہا ہے اور اس سب کی روک تھام کرنے والے  ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

پچھلی ایک دہائی سے مذہبی انتشار مسلسل بڑھتا جارہا ہے ملک میں مذہب کے نام پردھرنے دینا جن میں سب سے زیادہ نقصان عام عوام کا کر دینا ،اور پھر انہیں پرامن اور بے ضرر قرار دے دیا جانا کہاں کا انصاف ہے ؟ نا تو دھرنے دینے والا سوچتا ہے اور نہ دھرنوں میں شامل ہونے والے کہ ہم ملک کو کس سمت لے جا رہے ہیں۔

ایسے شدت پسند اقدام کے آگے حکومت ہمیشہ خاموش رہتی ہے اگرچہ انکو فروغ نہیں دیتی مگر حکومتی عہدیداران کا چپ سادھ لینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومتی ادارے ایسے انتہا پسندوں کے آگے کمزور ہیں جو دین کے نام پردین کو ہی بدنام کرتے ہیں۔ کبھی ہزارہ کے شیعہ فرقے کو نشانہ بنا دیا جاتا ہے تو کبھی ملک میں رہنے والے ہندوؤں اور عیسائیوں کو ، عوام اور ریاست کی طرف سے ہونے والا ایسا ناجائز سلوک اسلام کی غلط تشریح کرتا ہے۔ اسلام کبھی بھی کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایسے عمل جومذہبی انتشار کو فروغ دیں اسلام انکی نفی کرتا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں موجود اقلییتوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ سرِفہرست ہندو لڑکیوں کی زبردستی مسلمان گھرانوں میں شادی کروا دینا اور بیشتر علاقوں میں غیر مسلموں کا لاپتہ ہو جانا۔ یہ سب باتیں پاکستان کے آزاد ریاست ہونے پر سوالیہ نشان چھوڑ دیتی ہیں۔  نہ صرف انکی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ ان کی رہاٰئش گاہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہمارے لوگوں کے اندر مذہبی انتشار اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ کسی غیر مسلم کو اپنے علاقے میں آباد نہیں ہونے دیتےاور اگر کوئی ایسی کوشش کرتا ہے تو اسےتشدد کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔

13 اکتوبر 2020 کو پاکستان کے شہر کراچی میں ایک 13 سالہ لڑکی آرزو راجہ کو مبینہ طور پر اس کے گھر کے باہر سے اغوا کیا گیا ، 44 سالہ ہمسایہ اظہرعلی نے اغوا کیا ، اس نے اس سے شادی کرنے اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا تاہم بر وقت میڈیا کی توجہ نے اس 13 سالہ بچی کی زندگی بچا لی مگر ایسے اور بہت سے واقعات ہیں جو دب جاتے ہیں یا دبا دیے جاتے ہیں۔ بلاشبہ ان چیزوں کا رجحان پاکستان کی حالیہ تاریخ میں بڑھنے لگا ہے اور یہ ملک کی سلامتی اور ساکھ کے لیے ایک بری علامت ہے۔  اقلیتوں کے ستھ یہ رویہ ہمارے  معاشرے کے لیے انتہائی غیر مناسب  ہے۔ جہاں ہمیں بہت سے دوسرے معاشی مسائل کا سامنا ہے وہاں پر مذہبی عدم برداشت معاشرتی استحکام میں خلل پیدا کرتی ہے۔ جس کی روک تھام کرنا بہت ضروری ہے۔ اسلام کی حفاظت کے نام پراس رویے کے باعث الٹا اسلام و فوبیا پھیلتا جارہا ہے۔  ۔اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ ہماری دینی، آئینی ، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے لوگ اس ذمہ داری سے دستبردار ہوتے جارہے ہیں ۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے سن 2019ء کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مذہبی انتہا پسند پاکستان میں اقلیتوں پر حملے اور ایذارسانی  کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ان معاملات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں شدت پسندی اور بنیاد  پرستی  کس حد تک پھیل چکی ہے۔

موجودہ دور میں اقلیتیں چاہے کسی بھی ملک یا ریاست میں ہوں، انہیں بڑے پیمانے پر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ نفرت عداوت اور عدم برداشت چاہے وہ نظریاتی ہو یا ثقافتی ان کا خاتمہ ممکن ہے اور اس کے اختتام کے ساتھ اسی کتاب کا نیا باب شروع ہوجاتا ہے پھرچاہے یہ دس سال لے یا ایک صدی اختتام لازم ہے اور پاکستان میں اقلیتوں پہ تشدد کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں جب تک مضبوط سول قیادت کی آمد نہ ہو۔ جو بنیاد پرستوں کے مؤقف کے آگے ڈٹ جائے، کسی بھی قیمت پر جھکے نہیں  اسی صورت میں ریاست کوایسے لوگوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی مذہبی عدم برداشت کا مسئلہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ پاکستان کے معاشی مسائل کیونکہ جب تک ملک کےاندر امن و امان  نہیں ہوگا تب تک کسی بھی طرح کی ترقی مکمل فائدہ نہیں پہنچا سکتی، ملک میں استحکام نہیں آسکتا اور ملک کے غیر مستحکم رہنے کا سب سے زیادہ فائدہ  دشمن ملک بھارت کو ہوتا ہے جو ہمارے تلخ آپسی تعلقات کی وجہ سے ایسے اقدامات کی بھرپورپذیرائی کرتا ہے اور وہ ایسا کرنے میں اسلیئے کامیاب ہوتا ہے کیونکہ ہمارے لوگ آپس میں مذہبی جنگیں لڑنے میں اس قدرمصروف ہیں کہ اصل دشمن کی نشاندہی ہی نہیں کر پارہے۔ پاکستان کو بیرونی جنگوں کے ساتھ ساتھ اندرونی جنگیں بھی لڑنا ہونگی اور اس انتہا پسند رویّے کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو سخت اقدام اٹھانا ہونگے۔ کیونکہ بڑھتا انتشار ملک کو نہ صرف اندر سے کھوکھلا کر رہا  ہے بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کو بدنامی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

خدشہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں پر ہونے والا تشدد عام ہوتا جائے گا اگر ایسی ہی صورتحال رہی تو ۔آئے دن ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ابھی کچھ روز قبل مندرپر ہونے والے حملے نے مسلمانوں میں بڑھتا ممذہبی انتشاراور واضح کر دیا ہے۔ جن حقائق کی بنا پر ملک آزاد ہوا تھا قائد کے وہ الفاظ اب ہم فراموش کر چکے ہیں ، اس ملک کو بنا نے کا ہر گز مقصد یہ نہیں تھا جو آج بنتا جا رہا ہے- اور یہ سب دل دہلا دینے کی حد تک مایوس کن ہے ۔ اس عدم اعتماد اور نفرت کو روکنا ہوگا ، اداروں اور ریاست کو سخت اقدام اٹھانے ہونگے اور اقلییتوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کا علم ایک بار پھر سے بلند کرنا ہوگا تا کہ انکا ریاست کے انصاف پہ اعتماد بحال ہوسکے ۔ حکومت کو ایسے اقدام اٹھانا ہونگے کہ روایت اور ریاست دونوں کا بھرم قائم رہ سکے-

 

اقصیٰ بشارت ایک صحافی ہیں۔ انہوں نے فاؤنڈیشن یونیورسٹی راولپنڈی سے صحافت میں گریجوایشن کی ہے علاوہ ازیں وہ ترقی پسند نظریے پر مبنی موضوعات پر کالم لکھتی ہیں۔ مصنفہ آجکل متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔