قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ آپ اپنے گِرجا گھروں، مسجدوں یا دوسری عبادت گاہوں میں عبادت کے لئے جانے میں آزاد ہیں اور ریاست پاکستان کا اِس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ آپ کون سے مذہب، ذات یا نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ بات تو بہت زبردست تھی اور ہونا بھی یہی چاہیے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اُنہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ مندر بنائے بغیر مندر میں کیسے جائیں گے کیونکہ یہاں تو مندر بنانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
جب موجودہ حکومت نے اسلام آباد میں مندر بنانے کا فیصلہ کیا تو پنجاب اسمبلی کے سپیکر اور پاکستان کے تقریباً ہر حکومت کے شریک چوہدری پرویز الٰہی سے لے کر بہت سارے مولویوں اور دوسرے سرکاری مسلمانوں نے تو مندر بنانے کو غیر اسلامی، ملکی سلامتی کے لئے خطرہ اور دو قومی نظریے کے منافی تک قرار دے دیا۔ وہ ہندو بھی جناح کے پاکستان میں اپنے اور جناح صاحب کی مشترکہ بے بسی اور نئے پاکستان میں اُس کی اور اپنی حیثیت پر کتنا افسوس کر رہے ہوں گے۔
مندر کے بننے سے بننے والے مسئلے کے علاوہ حالات یہ ہیں کہ کل شیخو پورہ میں احمدیوں کے قبرستان میں قبروں کی بے حرمتی کی گئی اور قبروں کو توڑا گیا۔ مطلب جناح کا پاکستان اِس حد تک چلا گیا ہے کہ اقلیتیں (جو خود کو اقلیت سمجھتے ہی نہیں) مرنے کے بعد قبروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ چند دِن پہلے پشاور کے عیسائی ندیم جوزف بھی خالق حقیقی سے جا مِلے جِس کو اِس گناہ میں گولیاں ماری گئی تھیں کہ اُس نے مسلمانوں کے محلے میں گھر لینے کی ہمت کی تھی۔ مطلب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یہاں مسیحیوں اور مسلمانوں کے محلے بھی الگ الگ ہوں گے۔ یہ بات بھی سب کو پتہ ہے کہ پاکستان میں سالوں سے ہندوؤں کی کم سِن لڑکیوں کو جبری طور پر مسلمان کر کے نکاح میں لیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت موجود یہودیوں کی باقیات بھی ختم ہوگئی ہیں۔ پاکستان کی پارسی اقلیت بھی چُھپ چُھپ کر پھرتی ہے۔
قومی اقلیتیں یعنی پشتون اور بلوچ بھی خود کو مذہبی اقلیتوں سے کم نہیں سمجھتے بلکہ وہ فریاد بھی کرتے رہتے ہیں کہ جو سلوک اُن کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ فلسطین اور کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بھی نہیں ہوا ہوگا۔ پشتون اور بلوچ اپنے وسائل کے استحصال، ظالمانہ فوجی کارروائیوں، لاپتہ افراد وغیرہ کے مسائل پر سالوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔ بلوچ تو اپنی محرومیوں کا رونا رونے میں اِس حد تک چلے گئے ہیں کہ کئی گروہ سالوں سے ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔ سندھ کے لوگ بشمولِ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے بھی مرکز کی حکومت سے گِلہ کر رہے ہیں کہ اُنہیں حکومت میں ہونے کے باوجود اُن کا جائز حق نہیں مِل رہا۔ یہی حال صوبہ خیبر پختونخوا کا بھی ہیں جہاں کی سیاسی جماعتیں گِلہ کرتی ہیں کہ مرکز کی جانب سے اُن کے وسائل کے استعمال کے باوجود بھی اُن کو اُن کا حق نہیں دیا جا رہا۔
ہوا میں اٹکے صوبہ گلگت بلتستان کے عوام کے نمائندے اور سیاسی رہنما بابا جان بھی اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے سالوں سے جیل میں بند ہیں اور اُس کی بیمار ماں اُس کی رہائی کے لئے فریاد کر رہی ہے۔ واحد صوبہ پنجاب اور پنجابی ہے جو یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ اُن کے ساتھ دوسرے صوبوں اور اقوام کے مقابلے میں زیادتی ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے باقی اقوام خود کو اقلیت اور پنجاب کو اکثریت اور استحصال کرنے والا مانتے ہیں۔
حالات یہ ہیں کہ پنجابیوں کے علاوہ پاکستان کی ہر قوم خود کو ریاستی رویے کی وجہ سے کسی نہ کسی طریقے سے اقلیت سمجھتی ہے اور ریاستی جبر کے شکار ہونے کی فریاد کرتی ہے لیکن سوشل میڈیا ٹرولز کے ساتھ ساتھ وزیر خارجہ اور وزیر اعظم بھی اپنے ملک اور عوام کے مسائل اور محرومیوں پر آنکھیں بند کر کے مسلسل باہر کا رونا روتے ہوئے کہتے رہتے ہیں کہ مودی کشمیر اور بھارت میں اقلیتوں یعنی مسلمانوں پر بہت ظلم کر رہا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے منتخب نمائندے بار بار کہہ چکے ہیں کہ پاکسن ہماری فکر چھوڑ کر اپنی فکر کریں۔ لیکن یہاں بیانیے کی ترویج کے علاوہ کوئی اور ترجیح ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے اربابِ اختیار اپنی اندرونی اور سنگین مسائل کو نظر انداز کر کے بھارت، کشمیر، فلسطین، شام وغیرہ پر بات کر کے اپنے عوام کی نظریں حقیقی مسائل سے پھیرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
اربابِ اختیار یعنی موجودہ حکومت کے سلیکٹر کی کوششیں اپنی جگہ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ یہ کوششیں کب تک کارگر ہو سکتی ہیں کیونکہ دِن بدِن عوام میں شعور بڑھتا جا رہا ہے اور بھارت اور کشمیر جیسے معاملات پر ریاستی کوششوں پر لوگوں نے طنز کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے طور طریقوں کا اب اکثر لوگوں کو پتہ چَل چُکا ہے اور اب یہ بات ہر کِسی کی زبان پر ہے کہ موجودہ حکومت کے لانے کے لئے الیکشن میں دھاندلی کرنااور اُس کے بعد کی تباہیوں نے ملک کا کباڑا کر دیا ہے۔
اوپر بتائی گئی صورتحال اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات ہی تمام باتوں کا نچوڑ ہے۔ اگر کوئی ملک کے حقیقی مسائل کے حل کے بارے میں سنجیدہ ہے تو ریاست کو بلوچ اور پشتون قوم پرستوں سے شروع کر کے تمام اقلیتوں اور چھوٹی اقوام کی محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے تمام اقوام اور اقلیتوں کواعتماد میں لے کر ایک نیا عمرانی معاہدہ یا قومی بیانیہ تشکیل دینا ہوگا اور اُس کے نتیجے میں ایک منظم اور مساویانہ سیاسی اور معاشی پالیسی دینی ہوگی۔