سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا ہے کہ جس ملک میں ٹرولنگ جنرل ہوں وہاں ٹرولنگ جرنلسٹ بھی ہوتے ہیں۔ جس آپ کی ملک کی سیاست کو جنرلز کی جانب سے ٹرول کیا جا رہا ہو تو ایک صحافی انصاف کا ترازو لے کر سبزیاں تو نہیں بیچے گا۔
یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ جب آئین اور ملک کیخلاف سازش ہو تو پھر صحافی اور شہری نے اس کا مقابلہ کرنا ہے۔
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ ایکس سروس مین کی قیادت میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ماضی میں بھی سازشیں کرتے رہے اور ابھی تک اس کام پر لگے ہوئے ہیں۔ ملکی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایکس سروس مین کی سوسائٹی نے ایک سیاسی جماعت کی حمایت کا اعلان کیا اور موجودہ عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے سابق جنرل ضیا الحق کے بعد بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کیخلاف انہوں نے سازشوں میں حصہ لیا۔
پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے اعزاز سید کا کہنا تھا کہ 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو جب اقتدار سے نکالا گیا تو 10 اپریل کو جو لوگ عمران خان سے ملے ان میں سابق جنرل علی قلی خان بھی شامل تھے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سابق لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک کو آپ پی ٹی آئی کا کارکن ہی سمجھیں۔ ان کی پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے ساتھ بڑی رشتے داری ہے۔ جبکہ علی قلی خان کے خاندان کے لوگ بھی پی ٹی آئی میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جنرل علی قلی خان سے جب میں نے ملک کی معاشی صورتحال پر سوال کیا کہ ملک کی معاشی صورتحال خراب ہے تو آپ اپنی زمینیں کب واپس کر رہے ہیں، اس پر مجھے ایک صاحب نے پکڑ لیا جبکہ دوسرے اٹیک کر رہے تھے۔