وادی آیون کے اعظم ہاؤس کا خوبصورت پھولوں سے بھرا باغیچہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز

وادی آیون کے اعظم ہاؤس کا خوبصورت پھولوں سے بھرا باغیچہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز
انسان فطری طور پر روز اول سے خوبصورتی کا دلدادہ رہا ہے اور پھول خوبصورتی کا بہت بڑا عنصر یا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر بعض پھول اتنے دلکش ہوتے ہیں کہ ان کی دکشی اور خوبصورتی انسان کو ان کی طرف کھینچنے پر مجبور کردیتی ہے۔ وادی آیون کو بجا طور پر پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے جہاں ہر گھر اور ہر جگہ پھولوں کے چھوٹے بڑے باغیچے موجود ہیں مگر آیون کے اعظم ہاؤس میں موجود پھولوں کی بات کچھ اور ہے۔

اعظم ہاؤس میں ایک خوبصورت باغیچے میں نہ صرف پاکستان کے ہر علاقے سے بلکہ دنیا بھر سے پھولوں کے محتلف اقسام  منگوا کر لگائی گئی ہیں۔ اس باغیچے کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں گلاب کے پھولوں کے بے شمار رنگ اور اقسام موجود ہیں جن کے نام گننا بھی مشکل ہے۔ ان خوبصورت پھولوں کی رکھوالی کیلئے حاجی محبوب اعظم نے باقاعدہ طور پر پشاور سے ایک پیشہ ور  اور تربیت یافتہ مالی بلایا ہے  جو ان پھولوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

اعظم ہاؤس میں اتنے خوبصورت پھول موجود ہیں کہ انہیں دیکھنے کیلئے دور دراز سے سیاح یہاں آتے ہیں۔ ان پھولوں کو اکھٹا کرنا، انہیں محتلف شہروں اور بیرون ممالک سے منگوانے پر خطیر رقم بھی خرچ ہوئی ہے مگر حاجی محبوب اعظم کا کہنا ہے کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہے۔ انسان بعض اوقات غیر ضروری چیزوں پر بہت زیادہ روپیہ خرچ کرتا ہے اگر ان کی بجائے ان پھولوں پر خرچ کرے تو کم از کم یہ پھول انسان کو خوش تو رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میں تھکا ہارا کام سے گھر آتا ہوں تو چند  لمحوں کیلئے ان خوبصورت پھولوں کے درمیان بیٹھ کر ان سے کھیل کر ساری تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے اور انسان ذہنی طور پر تازہ دم ہوجاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج ہر دوسرا انسان ڈپریشن اور ٹینشن کا شکار ہے۔ اگر وہ لوگ ادویات کھانے یا نشہ کرنے کی بجائے ان پھولوں  کے ساتھ دوستی کرلیں تو ان کی ساری پریشانیاں دور ہوجائے گی۔ عام لوگ تو ان خوبصورت پھولوں کو دیکھ کر مزے لیتے ہیں۔ مگر آنکھوں سے معزور لوگ بھی اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

حافظ شیر ولی خان ایک دینی مدرسے کے مہتمم ہیں جو دس سال کی عمر میں بینائی سے محروم ہوا تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ان پھولوں کو دیکھ نہیں سکتا مگر جب اس باغ میں آتا ہوں تو ان  پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سے بہت زیادہ لطف اٹھا تا ہوں اور خوشی خوشی یہاں سے لوٹ کر جاتا ہوں۔

ان پھولوں کو دیکھنے کیلئے گورنمنٹ کامرس کالج چترال کے طالب علم احتشام الحق بھی آیون آیا تھا۔ احتشام کا کہنا ہے جب میں ان پھولوں کو دیکھتا ہوں تو پھر سے تازہ دم ہوجاتا ہوں  اور اگر طلباء کو ایسے پھولوں کے درمیان بیٹھ کر پڑھایا کریں تو ان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ انہوں نے کتنے گھنٹے پڑھائی کی ہے۔

یہاں آنے والے دیگر سیاحوں نے بھی ان پھولوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان خوبصورت پھولوں کو دیکھنے کے بعد وہ پھر سے تازہ دم ہوجاتے ہیں  اور انہیں ہسپتال جانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔

چترال یونیورسٹی کے شعبہ باٹنی کے پروفیسر حفیظ اللہ اور طب کے ماہرین  کا کہنا ہے کہ اگر انسان ان پھولوں سے پیار کرے اور اپنے گھروں میں پھولوں کے پودے لگاکر ان کی دیکھ بھال کرے تو ان کی قوت مدافعت بھی مضبوط ہوجاتی ہے اور ایسے لوگوں پر بیماریاں بھی آسانی سے اثر نہیں کرتیں۔ جو لوگ پھولوں  سے محبت کرتے ہیں ان کا دل ہمیشہ جوان رہتا ہے۔ اگر حکومتی سطح پر  ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے  جو اس قسم خوبصورت پھولوں کے باغ لگاکر سیاحت کوفروغ دیتے ہیں اور لوگوں کی خوشی کی باعث بھی بنتے ہیں  تو اس سے دوسرے لوگوں کا بھی حوصلہ بڑھے گا اور وہ بھی اپنی بساط کے مطابق  ہر جگہہ پھول لگا کر لوگوں  کی خوشی کی باعث بنیں گے۔