صبا دشتیاری کی لائبریری گرانے سے اس کا وجود نہیں مٹ سکتا

جہاں زبان کو نیست و نابود کرنے کے لیے صبا دشتیاری جیسے عالم شہید کیے جاتے رہے ہیں، وہاں صبا دشتیاری کی تیار کردہ لائبریری جو صبا کے وجود کی شہ رگ ہے، اس کتاب گھر کا مسمار کیا جانا صبا کے وجود کے خاتمے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے؟

صبا دشتیاری کی لائبریری گرانے سے اس کا وجود نہیں مٹ سکتا

صبا کو مارنے کے لیے بندوقچی استعمال ہوئے، گولیوں سے بُنی قمیض سید ظہور شاہ ہاشمی ریفرنس لائبریری میں محفوظ ہے اور اب اُسی قمیض، جس کے آجو باجو میں صبا کی زبان میں لکھی کتب، رسالے اور مقالے جمع ہیں، کو ختم کرنے کے لیے لائبریری کو مسمار کرنے کے لیے سرکاری سرخ رنگ کو جواز بنا کر سرکاری مشینری پہنچائی گئی ہے۔

ہزار بار صبا کو، صبا کی زبان، تاریخ، ثقافت اور ورثے کو مٹانے کی کوشش کریں مگر ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ صبا کو مرنا نہیں آتا۔

صبا کو مارنے والے من ہی من میں خود کو نامعلوم ٹھہراتے رہے، اس امر سے قطعِ نظر کہ بندوق کے خول سے لے کر مارنے والے کے ارادے اور زمین کی گواہیاں قاتل کو پوشیدہ نہیں رکھ پائے تھے تاہم اب کی بار صبا دشتیاری کے خواب، میراث، شناخت ایک عدد لائبریری کو ڈھائی لاکھ کتابوں سمیت مسمار کرنے والوں کے نہ ارادے پوشیدہ ہیں، نہ بلڈوز کرنے والی مشینری اور نا ہی ڈرائیور۔ اب کی بار سرپرست بھی نامعلوم نہیں لیکن سرمایہ داریت سے خود کو پناہ دیتے ملکی اشرافیہ کے نگہداشت و نگہبان چاہے ملیر کو تباہ کریں، مسجد کی جگہ پر بحریہ ٹاؤن بنائیں یا بلوچ کی بچی کھچی میراث کو زمین بوس کر دیں، انہیں تو ملکی عدلیہ بھی اربوں روپے کے عوض بری الذمہ قرار دے دیتی ہے۔

یہ تو ہمیں بھی پتا ہے کہ ملک ریاض محض ایک ڈیرے کا مالک نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ملک ریاض کے ہاں ایک ریاستی بندوبست ہی ڈیرہ ہو اور وہ جب چاہے لوگوں کے گھروں کا سایہ بلڈوز کردے، کھیتوں کے اناج بلڈوز کر دے یا بلوچوں کی لائبریری مسمار کر دے۔ اسے کون مسمار کرے گا بھلا!

جس ریاستی بندوبست میں بلوچ رہ رہا ہے وہاں مذہبی عبادت گاہیں بلڈوز کی جا رہی ہیں، وہاں عیسائیوں کا چرچ، احمدیوں کی عبادت گاہ، سکھ تاجر اور باقی ماندہ اقلیتیں خدا برتر کی آواز سے مر رہی ہیں، اس کی عبادت گاہ مسمار ہو رہی ہے۔ جہاں ایک قوم کا وجود خطرے میں ہے، جس کی ایک نسل جبراً لاپتہ ہے، مسخ شدہ لاشیں معمول ہیں، انسانی حقوق و بنیادی حقوق اتنی بار پامال ہوئے ہیں جو اب محض فسانے لگتے ہوں، وہاں بلوچ کی شناخت، زبان اور وجود کا حصّہ ڈھائی لاکھ کتابوں پر مشتمل لائبریری کی کیا اوقات۔ یقین مانیے یہاں بلوچ کی لائبریری کی اوقات بحریہ ٹاؤن کی لائبریری سے کم ہے جس کے باسیوں کے آرام دہ راستے کے لیے بلوچ کی لائبریری مسمار کی جا رہی ہے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

صبا کے تو وسائل محفوظ نہیں، ہر نئے دن ایک نیا اجنبی ریکوڈک کو لوٹنے آ جاتا ہے۔ ریکوڈک کو لوٹتے لوٹتے ریکوڈک کے وجود سے وابستہ ایک قوم کے علمی ورثے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

جس قوم کے سیندک و گیس ذخائر بحریہ ٹاؤن کی ملکیت ہوں، جس کی گوادر پورٹ کا خیرات بحریہ ٹاؤن میں 10 مرلہ گھر میں منتقل ہو رہے ہوں وہاں بیچ میں اُس قوم کے کتاب گھر کی کیا اوقات۔

لائبریری یا لائبریری کو بچانے والوں نے یہ ثابت تو کر دیا ہے کہ صبا، صبا کا نظریہ، کتب بینی، شوق، جنون، جذبے، مستقل مزاجی کو مرنا نہیں آتا۔ صبا اپنی لائبریری، اپنی زبان، لٹریچر کا معمار ہے اور صبا ہر عمر میں اپنے تاریخی ورثوں کی حفاظت کرتا رہے گا۔

لیکن بحریہ ٹاؤن والے چونکہ صبا کی زمین پر اجارہ دار ہیں۔ وہ صبا کا وجود مٹانے کیلئے کوشاں ہیں، انہیں خبر ہو کہ ملیر صبا کی زمین ہے اور صبا کی خون آلود قمیض صبا کی اپنی زمین پر محفوظ ہے۔

صبا کے وجود کو ختم کرنے کے لیے اس کی نان شبینہ تلف ہوتی رہی ہے۔ روزگار کو دو بارڈر پوائنٹ تک محدود رکھ کر اُسے مقامی و غیر مقامی بلوچ کا نام دے کر تقسیم کے عمل سے گزارا گیا ہے۔ صبا کی زمین کو ریاستوں اور صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ شناخت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے آبادکار لائے گئے ہیں۔ نسل کشی کی گئی ہے، بقا اجیرن بنا دی گئی ہے۔ بلوچی و براہوی زبان کی نسبت قومی وجود کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صبا کی زبان کی کتب، رسالوں کو پابندی کا سامنا رہا ہے، کالعدم ہوتے رہے ہیں۔ زبان کو نیست و نابود کرنے کے لیے صبا دشتیاری جیسے عالم شہید ہوتے رہے ہیں۔ وہاں صبا دشتیاری کی تیار کردہ ایک عدد لائبریری جو صبا کے وجود کی شہ رگ ہے اس کتاب گھر کو مسمار کیا جانا صبا کے وجود کے خاتمے کی سازش اگر نہیں تو اور کیا ہے؟

یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔