زبان زدِ عام یہ جملہ کہ 'پاکستانی عورت، مغربی عورت سے زیادہ آزاد ہے'، درحقیت یہ جملہ اس سماج کی عورت پر ظلم و جبر کے سوال کا وہ ناقص جواب ہے جس کے پیچھے اس درندہ صفت معاشرے کا ہر مرد چھپنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ جواب ایک ایسا جھوٹ ہے جو اس معاشرے کی عورت پر ہونے والے مظالم کی کئی داستانوں کو من و مٹی تلے روند دیتا ہے۔ جہاں بیٹی کا پیدا ہونا ایک پریشانی کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں فیمنزم اور حقوقِ نسواں کے لئے چلنے والی تحریکوں کو مغربی ایجنڈے کے ساتھ جوڑ کر بنیاد پرستی اور پدر شاہی کو مضبوط کیا جارہا ہے۔ معاشرتی تعمیراتی اصول ( Socially constructed theory) کے تحت مردوں کو زیادہ طاقت ور اور مضبوط بتلایا جاتا ہے مگر عورت کو کمزور، بیچاری، اور مرد کی فرمانبردار جیسی تشبیہات سے نوازا جاتا ہے تا کہ وہ ذہنی طور پر اپنی پستی کا اعتراف کرلے اور مرد کی زیادتیوں پر ہمیشہ کے لئےچپ سادھ لے۔
معاشرتی تہذیب کے علمبردار اس معاشرے کی عورت ریپ، جنسی نا انصافیوں، تعلیی نا خواندگی ، زبردستی کی شادی ، جنسی حراسانی ، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی اور ایسے بے شمار سماجی استحصال کے ساتھ زندگی گزارتی ہے جو کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنے فیصلوں میں آزاد اور ذاتی آزادی سے زندگی جینے والی عورتوں کو آوارہ اور بد کردار گردانا جاتا ہے۔ ان کو مدر پدر آزاد جیسے لاگ آلاپ کر معاشرے میں بے عزت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں آزاد اور آوارہ ’مرد‘ کی کامیابی کو سیلف میڈ کامیابی تعبیر جاتا ہے۔
عورت کے استحصال کی کوئی ایک کہانی نہیں بلکہ ہر گھر میں اس استحصال کی الگ کہانی ہے۔ جہاں یا تو بیٹی بنا کر اس کے خوابوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے یا ماں بنا کر اسکی مامتا کو چپ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب عورت کا گھر میں کیا جانے والا کام کسی صورت بھی ملکی معیشیت میں شامل نہیں لہذا مردوں کی کمائی ہی گھریلو معاونت تصور کی جاتی ہے اور اسی بل پر وہ گھر میں حکمرانی کرتا ہے۔
اس معاشرے کی عورت کے ذہن میں یہ ڈال دیا گیا ہے کہ مرد کی غلامی اور خوشنودی ہی اسکی حقیقی کامیابی ہے اور ایک آئیڈیل عورت وہی ہے جس کا مرد اس سے خوش رہے ( وہ اپنے مرد سے کتنا خوش ہے اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں)۔ اسی لئے بہت سی ایسی تحریکیں جو عورت کے حقوق کے لئے چلتی ہیں ان عورتوں کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتیں جنہوں نے مردوں کی اس سازش کو نظریہ اتم تسلیم کر لیا ہے۔ صد افسوس کہ انکی تعداد بہت زیادہ ہے۔
ہمارے معاشرے میں عورت کا استحصال بچپن میں گھر سے شروع ہو کر سکول ، سکول سے کالج ، کالج سے یونیورسٹی، یونیورسٹی سے دفتر اور دفتر سے سسرال جا کر ختم ہوتا ہے جہاں وہ سلسلہ وار ذہنی ، جسمانی اور نفسیاتی حراسانی کا شکار ہوتی ہے۔ اس حراسانی کو ثابت کرنے کا کوئی میعار اور پیمانہ نہیں ہے لہذا اگر کوئی عورت اس حراسانی کے خلاف آواز بلند کرے تو یا تو وہ آواز دبا دی جاتی ہے یا پھر اس پر لبرل، بے غیرت اور مغربی آزادی جیسے الزامات لگا کر خود کشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ مظلوم کو ہی موردم الذام ٹھہرانا یعنی وکٹم بلیمنگ اس بےحس معاشرے کا بہترین مشغلہ بن چکا ہے۔ جہاں سب سے بڑے صوبے کے سب سے بڑے شہر کا سب سے بڑا محافظ، عورت کے ریپ کا جواز یہ بناتا ہے کہ اسلام کے اس مضبوط قلعے اور مردوں کے اس بہترین معاشرے میں ' عورت گھر سے باہر نکلی ہی کیوں'؟
مشرقی اقدار کے علمبردار اس مشرقی معاشرے میں عورت کو اپنے ہی مشرقی افراد سے بچنے کے لئے بازار میں اکیلے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ جہاں ہر اکیلا مرد دوسروں کی بہنوں کوگھورتا اور حراساں کرتا ہے اور جب اپنی بہن کے ساتھ ہو تو اس کی نظر اردگرد مردوں کی جانب ہوتی ہیں (کہ کوئی اسکی بہن کو دیکھ نا لے)۔
ہر وہ مرد جو عورت کو اکیلے باہر نکلنے سے روکتا ہے ، اسے معاشرے کے دیگر مردوں میں اپنا عکس دکھائی دیتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ وہ عورت (جو گھر سے باہر اکیلے نکلتی ہے) قصور وار ہے یا وہ مرد جو عورت کو انسان کی بجائے صرف ایک جنس یا سیکشول اوبجیکٹ کی نظر سے دیکھتا ہے ؟
یہ وہ مقدس معاشرہ ہے جہاں چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی جیسے بے شمار واقعات اخباروں کی زینت بنتے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل کی روداد روزانہ ٹی وی پر دکھائی جاتی ہے، جہاں لڑکیوں پر تیزاب پھینکنے جیسے واقعات عام اور بچیوں کی رضا مندی کے بغیر شادیوں کے شادیانے دھوم دھام سے بجائے جاتے ہیں وہیں اس ظلم و جبر کے خلاف کوئی آواز گونجے تو ہماری تہذیب کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ عورت کے خلاف اٹھنے والے مظالم جب فیمنزم کی صورت اٹھائے جاتے ہیں تو اسے عورت کو مغربی طرز آزادی حاصل کروانے کی سازش سمجھا جاتا ہے۔ جہاں عورت مارچ پر اٹھائے گئے ہزاروں پلے کارڈز کو فوٹو شاپڑ کر کے اس معاشرے کی گھٹیا اور گندی شکل سامنے آتی ہے۔ ان فوٹو شاپڑ تصاویر کی بنیاد پر عورت مارچ کے خلاف پروپیگینڈا کیا جاتا ہے اور ان پلے کارڈز کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جہاں عورت پر مظالم کی نشاندہی کی گئی۔
اس معاشرے کا ہر مرد ان تمام حقائق سے بخوبی واقف ہے مگر جب بھی کسی طاقتور کی طاقت چیلنج ہوتی ہے تو اس کی چیخیں نکلتی ہیں یہی اس معاشرے کے مردوں کے ساتھ ہو رہا ہے جو خواتین کی حق کی آواز کو دبانے کے درپے ہیں۔
یہ تمام حقائق مشرقی اقدار کے حامل منافق معاشرے کی صرف ایک جھلک ہے جسے اور باریک بینی سے دیکھا جاسکتا ہے، اس حقیقت کو بے نقاب کرنا بحثیت مرد میرے لئے شرمندگی کا باعث ہے ۔ اگر کوئی اس ظلم اور نا انصافی کے جواب میں مذہبی دلیل پیش کرے تو اس کے مذہبی اور دماغی شعور پر ماتم ہی کیا جاسکتا۔
بہرحال وہ پھر بھی یہی کہیں گے کہ فیمنزم اور حقوق نسواں کی ہر تحریک ایک مغربی اور شیطانی ایجنڈا ہے اور ہر وہ عورت یا مرد جو فیمنزم کا ساتھ دیتے ہیں وہ گمراہی کے راستے پر گامزن ہیں۔ ہر وہ عورت جو اس استحصال اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے وہ بد کردار ، بد اخلاق اور بد تہذیب ہے کیونکہ ان کے پاس مشرقی مردوں کے معاشرے کی حقیقت سمجھنے کے باوجود اس گھسے پٹے جملے کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں کہ 'پاکستانی عورت، مغربی عورت سے زیادہ آزاد ہے‘
حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔