عالمی یوم خواتین گزرے دو ہفتے گزر چکے لیکن ’’عورت مارچ‘‘ کی بازگشت دھیمی نہیں پڑی

صوبہ خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی نے آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے ملک کے مختلف شہروں میں نکالی جانے والی خواتین کی ریلیوں یا ’’ عورت مارچ‘‘ کے خلاف متفقہ طور پر مذمتی قرارداد منظور کر لی ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رُکن صوبائی اسمبلی ریحانہ اسمٰعیل نے قرارداد پیش کی جس میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ملک بھر میں نکالے جانے والے ’’ عورت مارچ‘‘ کے ذریعے ہمارے خاندانی نظام اور سماجی روایات کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ مارچ میں شریک خواتین نے غیر اخلاقی پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔

https://youtu.be/aFzF3aBHN-I

مذکورہ قرارداد میں مزید کہا گیا تھا کہ خواتین سول سوسائٹی کے نام پر بے ہودہ مطالبات کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئیں جب کہ اسلام نے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق واضح کر رکھے ہیں لیکن سول سوسائٹی کے نام پر ملک میں معاشرتی بگاڑ پیدا کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میرا جسم، میری مرضی میں اعتراض کیا ہے؟ اور کیا آپ کی مرضی ہو؟

قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ سماجی و خاندانی روایات کو بگاڑنے والی درپردہ قوتوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔



صوبے میں برسراقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اراکین نے قرارداد کی من و عن حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا، تاہم کچھ ترامیم کے بعد انہوں نے بھی یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔

یاد رہے کہ آٹھ مارچ کو ملک کے مختلف شہروں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے ’’ عورت مارچ‘‘ میں حصہ لیا تھا۔ اس نوعیت کا پہلا مارچ 2018ء میں کراچی میں ہوا تھا تاہم رواں برس لاہور، ملتان، فیصل آباد، لاڑکانہ اور حیدرآباد سمیت متعدد شہروں میں اس نوعیت کی ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔



یاد رہے کہ سندھ اسمبلی کے رکن اور جماعت اسلامی کے رہنماء عبدالرشید نے مبینہ طور پر فحاشی کو فروغ دینے پر عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی تھی۔ انہوں نے سندھ اسمبلی میں بھی " عورت مارچ‘‘ میں اٹھائے گئے پلے کارڈز کے خلاف احتجاج کیا اور صوبائی حکومت سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تاہم ان کی یہ سب کوششیں رائیگاں گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عورت مارچ نے ثابت کر دیا کہ مذہبی اور لبرل دونوں ہی انتہا پسند ہیں

ادھر، پنجاب کے وزیر اطلاعات صمصام بخاری نے کہا تھا، ہر فرد کی عورت مارچ کے حوالے سے اپنی رائے ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کچھ پلے کارڈز ہماری سماجی اقدار کی ترجمانی نہیں کر رہے تھے۔ انہوں نے  دوٹوک الفاظ میں کہا:’’یہ فرد کی انفرادی آزادی کا معاملہ ہے اور وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘