Get Alerts

بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دیں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ

بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دیں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ
وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری اور بلوچ طلباء کے خلاف درج مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری انسانی حقوق سے پوچھا کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ ایف آئی آر بنتی تھی؟ جس پر انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہماری وزارت نے چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ مانگی تھی لیکن جمعہ کو رپورٹ جمع کرائی جانی تھی لیکن ابھی تک جمع نہیں ہو سکی۔

سیکرٹری انسانی حقوق، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد عدالت پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پوچھا کہ یہ کیمپ کب سے لگا ہوا ہے جس پر وکیل ایمان مزاری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیمپ یکم مارچ سے لگا ہوا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ میں طلبہ سے ملا ہوں وہ کہتے ہیں سیاہ کپڑوں میں لوگ آ کر ہراساں کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت میں سے کوئی بھی احتجاجی کیمپ میں نہیں گیا یہ وفاق ہے، وفاقی حکومت کو تو زیادہ توجہ دینی چاہیے اور وفاقی حکومت کے سب سے اوپر کے لوگوں کو احتجاجی کیمپ میں جانا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدر پاکستان 2014 میں اس عدالت میں درخواست گزار تھے، اور عدالت نے ریلیف دیا تھا لیکن اب اس حکومت کے دور میں بلوچ طلباء کو اس طرح احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بلوچستان کے طلباء اتنے عرصے سے بیٹھے ہیں انکی بات کوئی نہیں سن رہا اور وفاقی حکومت کو تو بلوچستان کے طلباء کو فورم فراہم کرنا چاہیے۔

چیف کمشنر اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ہم اب اس معاملے کو پوری طرح سے دیکھیں گے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کے لئے تو ہمیں ذرا آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہیےجس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے میں اس پر مشاورت کرتا ہوں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اسلام آباد پولیس کو ٹریننگ کی ضرورت ہے ہو سکتا ہے انکی ٹریننگ ہی نہ ہو۔ اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کے ریمارکس پر جواب جمع کرتے ہوئے کہا کہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال یہ ہے کہ پشاور میں اتنا بڑا سانحہ ہوا لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

عدالت نے مزید کہا کہ وزیراعظم یا وزراء کو ان طلباء کے پاس جانا چاہیے تھا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آسٹریلیا کی ٹیم ٹھہری ہوئی ہے، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کے دلائل پر برہم ہوتے ہوئے کہا کہ بلوچ طلباء نے کیا کِیا ہے، کیا کوئی بم پھوڑا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ بلوچ طلباء کو سننا بہت ضروری ہے، یہ عدالت اُنکی آواز دبانے کی اجازت نہیں دے گی۔

وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ طلباء کہتے ہیں کہ ہم اپنی تعلیم چھوڑ کر اپنی حفاظت کے لیے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوان طلباء پر امن طور پر بیٹھے ہیں لیکن ان کی ریشنل پروفائلنگ بھی ہو رہی ہے، یہ تو غیر آئینی اور بہت سنجیدہ بات ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ چیف کمشنر صاحب آپ کے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ بلوچ سٹوڈنٹ کا معاملہ بھی دیکھا جائے گا۔

بلوچ طلبا کے احتجاج پر درج مقدمہ اخراج کی درخواست پر سماعت 21 مارچ تک ملتوی۔