اسلام آباد پولیس نے وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایڈوکیٹ ایمان زینب مزاری سمیت بلوچ طباء کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مقدمہ اخراج کی درخواست پر سماعت کی، ایمان مزاری کی جانب سے زینب جنجوعہ ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ ہم کہہ چکے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے آرڈر کے بغیر ایسے کیسز میں گرفتاری نہیں ہو سکتی۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایمان مزاری اور بلوچ طلباء کے خلاف ایف آئی ار منسوخ کر دی گئی۔ زینب جنجوعہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ دفعہ 144 کا غلط استعمال کیا جاتا ہے،چاہتے ہیں عدالت اس کی وضاحت کرے۔
خیال رہے کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، بلوچ طلبہ نے یکم مارچ کو نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا تھا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ سمیت احتجاج میں شریک سیکڑوں طلبہ کیخلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق بغاوت اور بلوے کی دفعات مبینہ طور پر ریاست مخالف نعرے لگانے پر لگائی گئیں ۔اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں بغاوت کی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ایمان زینب مزاری نے اپنے خلاف درج کیا گیا مقدمہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
ایمان مزاری نے عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں ایف آئی آر کی کاپی فورا فراہم کرنے اور کارروائی معطل کرنے کی درخواست کی۔انہوں نے استدعا کی کہ ایف آئی آر سیل کرنا اور کاپ فراہم نہ کرنا قانون کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔ ایف آئی آر کی کاپی اور وقوعہ کا تمام ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔
انہوں نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ بلوچ طلبہ پر پولیس نے پریس کلب کے سامنے لاٹھی چارج کیا پھر مجھ سمیت سب پر ایف آئی آر درج کی ،آزادی اظہار رائے کا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے پریس کلب کے باہر طلبہ کے احتجاج میں گئی جہاں طلبہ جبری گمشدگیوں اور اپنے حقوق کیلئے احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے پرامن طلبا پر لاٹھی چارج کیا۔
میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ میرے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی معلوم ہوا کہ ایف آئی آر میں بغاوت کی دفعات شامل ہیں۔پولیس ایف آئی آر کی کاپی فراہم کرنے سے بھی انکاری ہے، مجھے گرفتاری کا بھی خدشہ ہے