آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ میں پاکستانی سفیر کے طور پر تعینات کیا جائے گا۔ اس حوالے سے ان کے کچھ خیرخواہوں اور قریبی دوستوں کی جانب سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ کہنا تھا صحافی اعزاز سید کا۔
حالیہ وی لاگ میں اعزاز سید کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال 18 ستمبر کو انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی مدت ملازمت ختم ہونے والی تھی تاہم نومبر میں ان کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی گئی تھی۔ اس ضمن میں سیکرٹری دفاع کی جانب سے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو سمری بھیجی گئی تھی۔ 14 ستمبر کو سمری منظور کی گئی تھی جس کے مطابق جنرل ندیم انجم تا حکم ثانی اسی عہدے پر کام کریں گے۔ ان کی توسیع کا دورانیہ واضح نہیں کیا گیا تھا۔
صحافی نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق جنرل ندیم انجم اور ان کے کچھ خیر خواہ چاہتے ہیں کہ انہیں امریکہ میں پاکستان کے نئے سفیر کے طور پر تعینات کر دیا جائے۔ ان کے بعض ملکی اور غیر ملکی دوستوں کی جانب سے انہیں امریکہ میں سفیر بنانے کے لیے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ تاہم اس حوالے سے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کوششیں سود مند ثابت ہوں گی یا نہیں کیونکہ اس بات کا فیصلہ موجودہ آرمی چیف نے کرنا ہے۔ آرمی چیف نے ایک اہم فیصلہ یہ کرنا ہے کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کون ہوں گے۔ یہ فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آئی ایس آئی کو آرمی چیف کے 'آنکھ اور کان' کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بظاہر تو آئی ایس آئی چیف وزیر اعظم کے ماتحت ہوتا ہے لیکن فوجی افسر ہونے کے وجہ سے فوج کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی چیف کی کوشش ہوتی ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف دونوں کے ساتھ معاملات کو خوشگوار رکھے۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ شہباز شریف وزیر اعظم ہیں اور وہ کسی بھی ایسے آئی ایس آئی چیف کو کھلے دل سے قبول کر لیں گے جو آرمی چیف کے ساتھ زیادہ وفادار ہو کیونکہ وزیر اعظم شہباز شریف خود آرمی چیف کے ساتھ مل کر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی ماضی میں بھی یہی سوچ تھی اور وہ اپنے بھائی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بھی بارہا یہی کہتے تھے کہ سر نیچے ڈال کر کم و بیش دو ٹینور گزارے جائیں تو پھر طاقت حاصل کر کے ملٹری کے رول کو کم کیا جائے۔ اسی فارمولے کے تحت شہباز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے ہیں۔ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے راستے میں حائل نہیں ہوتے اور کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ 1992 سے فوج اس کوشش میں لگی تھی کہ شہباز شریف وزیر اعظم بنیں۔ عمران خان کے اقتدار سے جانے کے بعد فوج کی یہ کوشش کامیاب ہوئی اور وہ پہلی بار وزیر اعظم بنے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
شہباز شریف نے اب دوسری بار وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا ٹینور مکمل ہو گا یا نہیں، اس میں کلیدی کردار نئے آئی ایس آئی چیف کا ہو گا۔ ایسا نہیں کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی نے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے تاہم بہت سارے عوامل میں سے ایک اہم آئی ایس آئی چیف ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی کی جانب سے روزانہ یا ہفتہ وار بنیادوں پر متعدد رپورٹس وزیر اعظم کو دی جاتی ہیں تاہم کچھ معاملات سے متعلق رپورٹس صرف آرمی چیف کو بھیجی جاتی ہیں۔ فوج کے سب سے بڑے فورم کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی کی جانب سے بریفنگ دی جاتی ہے اور ان کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اسی لیے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی جانب سے موجودہ آئی ایس آئی چیف اور ڈی جی ایم آئی کو بھرپور حمایت حاصل ہے کیونکہ ان کے خیال میں تمام دیگر سیاسی معاملات سے زیادہ بڑا مسئلہ عمران خان ہیں اور وہ بالکل بھی قابل اعتماد نہیں ہیں۔ ایسے میں اگر شہباز شریف نے اپنا 5 سالہ ٹینور پورا کرنا ہے تو وہ آرمی چیف پر انحصار کریں گے اور آرمی چیف کا انحصار اپنے آئی ایس آئی اور ایم آئی چیفس پر ہو گا۔
اب آرمی کو درپیش مسائل بیرونی کم اور اندرونی زیادہ ہیں کیونکہ متعدد ریٹائرڈ آرمی افسران کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ موجودہ فوجی قیادت اور عمران خان کے مابین معاملات بہتر کیے جا سکیں مگر یہ کوشش بظاہر کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
صحافی نے کہا کہ حکومت کا 5 سالہ ٹینور پورا ہونے کا انحصار معیشت کی بحالی، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور خطے کے دیگر ممالک کی سپورٹ پر ہے۔ ایسے میں دیکھا جائے تو پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا مشترکہ دشمن عمران خان ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سعودی عرب، چین اور بھارت بھی عمران خان کو پسند نہیں کرتے۔ عمران خان نے چونکہ امریکہ پر ان کی حکومت گرانے کا الزام لگایا تھا اس لیے وہ امریکہ کے لیے بھی ناقابل قبول ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی قیادت کی طرف سے امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے لابنگ کی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں پہلے اکا دکا جبکہ پچھلے کچھ عرصے میں کافی تعداد میں امریکی سیاست دانوں کی جانب سے عمران خان کی حمایت میں بیان سامنے آئے ہیں۔ حال ہی میں امریکی کانگریس اراکین کی جانب سے امریکی حکومت کو پاکستان کی نئی منتخب حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا لیکن اس کے برعکس امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کی جانب سے پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بیان اور مریم نواز کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کو اہم سنگ میل قرار دینا خوش آئند قدم تھا۔
ایسے میں کوشش یہی کی جائے گی کہ ایسے امیدوار کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا جائے جو مشترکہ مسائل کے حل کے لیے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا وفادار ہو۔ امکان ہے کہ آئندہ ایک سے دو ماہ میں نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا فیصلہ بھی کر لیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ماضی میں بھی ریٹائرڈ فوجی افسران کو مختلف ممالک میں پاکستانی سفیر تعینات کیا جا چکا ہے۔ 2013 میں 3 ریٹائر جرنیلوں کو پاکستانی سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) احسن اظہر حیات کو اردن میں سفیر، میجر جنرل (ر) قاسم قریشی کو سری لنکا میں ہائی کمشنر جبکہ میجر جنرل (ر) الفت حسین شاہ کو ماریشس میں ہائی کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت کے دوران 2020 میں پاک فوج سے ریٹائرڈ 11 میجر جنرلز اور پاک فضائیہ سے ریٹائرڈ 2 افسران کو مختلف ممالک میں سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ میجر جنرل (ر) وقار احمد کنگراوی کو ابوجا میں، میجر جنرل (ر) زاہد مبشر شیخ کو یوکرائن میں جبکہ میجر جنرل (ر) محمد خالد راؤ کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر بوسنیا اور ہرزیگوینا میں بطور سفیر تعینات کیا گیا۔ میجر جنرل (ر) عبدالعزیز طارق کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر برونائی دارالسلام میں ہائی کمشنر تعینات کیا گیا۔ میجر جنرل (ر) عمر فاروق برکی کو عمان میں پاکستانی سفیر تعینات کیا گیا۔ میجر جنرل (ر) سعد خٹک کو سری لنکا میں سفیر مقرر کیا گیا تھا۔
تحریک انصاف حکومت نے گریڈ 22 میں دو ممالک میں بطور سفیر کنٹریکٹ کی بنیاد پر پاک فضائیہ کے دو اعلیٰ حکام کی خدمات حاصل کیں۔ وائس ایڈمرل (ر) وسیم اکرم کو مالدیپ میں جبکہ ایئر مارشل (ر) راشد کمال کو عراق میں پاکستانی سفیر تعینات کیا گیا۔
2021 میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) بلال اکبر کو سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔