افسانہ نگار قمر یورش جنہیں منٹو اور قاسمی کی رفاقت میسر تھی

ایک بار وہ منٹو کے ساتھ پاک ٹی ہاؤس سے باہر نکلے تو کوڑے کے ڈھیر پر ایک کتا اور غریب بچہ اکٹھے رزق تلاش کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر قمر یورش کو ابکائی سی آ گئی تو منٹو صاحب نے ان کو ڈانٹ کر کہا؛ اگر تم یہ نہیں دیکھ سکتے تو تم کبھی افسانہ نگار نہیں بن سکتے۔

افسانہ نگار قمر یورش جنہیں منٹو اور قاسمی کی رفاقت میسر تھی

قمر یورش مزدور افسانہ نگار تھے۔ ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں رہیں۔ وہ شمالی لاہور (فاروق گنج) ہمارے آبائی گھر میں اکثر آتے تھے۔ میری بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ بلا کے صاف گو تھے۔ صرف سچ ان کے منہ سے نکلتا تھا۔ میں نے ان کو پہلی بار گھر بلایا۔ کھانے کے دوران ان کو اپنا لکھا افسانہ میراثی، جو میرے پہلے افسانوی مجموعہ 'کون لوگ' میں شامل ہے، سنایا۔ انہوں نے تعریف کی۔ اگلے ہفتے پھر ان کو گھر بلایا۔ اپنا دوسرا افسانہ 'دو روحیں' سنایا۔ چائے پیتے ہوئے کپ ایک طرف رکھ کر بولے؛ تم مجھے بڑی محبت سے گھر بلاتے ہو، کھانا کھلاتے ہو، چائے پلاتے ہو، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں تمہاری لکھی ہر کہانی کی تعریف کروں گا۔ یہ افسانہ 'دو روحیں' بہت فضول ہے۔ اس کو دوبارہ لکھو۔ خیر میں نے اسے دوبارہ لکھا۔ وہ فاروق طارق صاحب کے پرچے ہفت روزہ 'جدوجہد' میں شائع ہو گیا۔

قمر یورش افسانہ نگاری اور خاکہ نگاری کرتے تھے۔ ان کی 10 کے قریب کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ان کی خاکہ نگاری بہت جاندار تھی۔ جس کا بھی خاکہ لکھتے وہ ان سے ناراض ہو جاتا کیونکہ وہ سچ لکھتے تھے۔ ان کی زندگی کے آخری ایام فاروق طارق اور لیبر پارٹی کے دفتر میں گزرے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ مجھے دفن نہ کرنا بلکہ دریائے راوی میں میری لاش بہا دینا تا کہ مرنے کے بعد میرا جسم مچھلیوں کے کام آ سکے۔ ظاہر ہے پاکستان جیسے ملک میں یہ بات ممکن نہیں ہو سکتی تھی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

قمر یورش کا بہت سا وقت احمد ندیم قاسمی صاحب کے ساتھ گزرا۔ وہ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ قاسمی صاحب کو انسان دوست کہتے تھے۔ منٹو صاحب کو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار کہتے تھے۔ ایک بار وہ منٹو کے ساتھ پاک ٹی ہاؤس سے باہر نکلے تو کوڑے کے ڈھیر پر ایک کتا اور غریب بچہ اکٹھے رزق تلاش کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر قمر یورش کو ابکائی سی آ گئی تو منٹو صاحب نے ان کو ڈانٹ کر کہا؛ اگر تم یہ نہیں دیکھ سکتے تو تم کبھی افسانہ نگار نہیں بن سکتے۔

قمر یورش پکا مارکسی تھا۔ ساری زندگی مخنت کشوں کے حقوق کا پرچم بلند رکھا۔ پاکستان کی تمام بائیں بازو کی جماعتوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے مگر فاروق طارق کی بہت تعریف کرتے تھے۔ کچھ پڑھے لکھے ادیب ان کو کم تعلیم یافتہ کہتے تھے اور ان کے حلیہ کی وجہ سے ان کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک بار ان کو حلقہ ارباب ذوق کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے روکا گیا تو منہ پھٹ قمر یورش فوراً بولا؛ حلقہ ارباب ذوق ادیبوں کا فورم ہے، پولیس کے مخبروں کا نہیں۔  قمر یورش ریلوے یونین میں مزدور تھے۔ ٹریڈ یونین میں رہے۔ جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ شاہی قلعہ اور جیلوں میں قید رہے۔

ان کے لکھے ایک دیہاتی کے خاکے کی آخری لائن یہ ہے کہ میں تھکا ہارا مزار اقبال پر جا کر بیٹھ گیا، ایک دیہاتی وہاں آیا اور رو رو کر اپنی منت پورا ہونے کی دعائیں مانگنے لگا، جب وہ چپ ہوا تو میں نے اس سے کہا کہ تم علامہ اقبال کے مزار پر منت پوری ہونے کی دعائیں کیوں مانگ رہے ہو تو دیہاتی نے غصے سے میری طرف دیکھا اور کہا، اوہو میں سمجھا شاید یہ پیر لسوڑے شاہ کا مزار ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔