چلیں کسی کو کچھ خیال تو آیا کہ جب تک لوگوں میں خوف ہو نہ ریاست کا کاروبار چلتا ہے نہ معیشت۔ لیکن کیا افسر اور کاروباری لوگ حکومت کی ان یقین دہانیوں پہ باور کریں گے؟ ہرگز نہیں۔ جب تک ادارے اور قانون مضبوط نہ ہو جائیں کوئی حکومت کی باتوں پہ یقین نہیں کرے گا۔ اسی وجہ سے حکومتِ وقت کی اور کئی یقین دہانیوں کی طرح یہ یقین دہانی بھی ناکام ہو جائے گی۔ یقین بننے میں کئی سال لگتے ہیں اور ٹوٹنے میں ایک لمحہ۔ اور نہ ہی نیب کے قانون میں ترامیم سے یہ خوف ختم ہو گا کیونکہ جب عدالتیں ہی آزاد نہ ہوں تو ترامیم کا کیا فائدہ۔
جب واٹس ایپ کے ذریعے دوران سماعت ججوں کے تبادلے ہو رہے ہوں، جب ایک ملک کا چیف جسٹس کروڑوں لوگوں کو بیوقوف بنا کے اربوں روپے اکٹھے کرے اور پھر وہ اچانک سے غائب ہو جائیں اور وہ خودبھی غائب ہو جائے۔ جب ایک منسٹر یہ بیان دے کہ رانا ثنا اللہ کو ان کی گرفتاری سے تین ہفتہ قبل تک گرفتار اس لئے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہیروئن پھرا رہے تھے (ویسے ڈرامے بازی کی بھی حد ہوتی ہے)، جب ایک ملک کے چیف جسٹس کی یہ رائے ہو کہ ہر کامیاب ہونے والا شخص دو نمبر ہوتا ہے، جب ایک ملک کے سینئر پولیس افسر کو اس ملک کے دارالحکومت سے اغوا کر لیا جائے اور اس کی لاش پڑوسی ملک سے ملے اور ریاست کی غیرت نہ جاگے۔
جس ملک میں کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہو کہ سچ میں آدمی ٹانگوں پر کھڑا ہو جائے جبکہ اس دن ریاست گھوڑے بیچ کے سوئی ہوئی ہو۔ جس دن کشمیر پہ ضرب لگی۔ تو ایسے ملک سے لوگ بھاگتے ہیں، وہاں سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔
ایسا کیوں ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم کے کہے بغیر نہ صرف دنیا بھر سے لوگ برطانیہ میں انوسٹمینٹ کرتے ہیں بلکہ وہاں ہمیشہ کے لئے آباد بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے، نظام کی مضبوطی۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ برطانیہ کی سپریم کورٹ کبھی بھی اپنی ماتحت عدالتوں پہ حکم چلائے کہ یہ چیز ایسے کرو یا ویسے۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں اصل عدالتیں نیچے کی عدالتیں ہوتی ہیں۔ جس کو ہم ٹرائل کورٹ کہتے ہیں۔ ہمارا دنیا کا واحد ملک ہو گا جہاں ٹرائل کورٹ کو اوپر کی عدالتوں کا ماتحت سمجھا جاتا ہے۔ آپ صرف یہ دیکھیے کہ اکثر وہ وکیل جو چند پیسے کما لیتے ہیں پھر نچلی عدالتوں کا رخ ہی نہیں کرتے۔ بلکہ بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ میں تو نیچے کی عدالتوں میں جاتا ہی نہیں۔ ہر شخص اور ادارہ اپنا کام کرتا ہے وہ بھی بھرپور طریقے سے۔
آپ کشمیر آور کو ہی دیکھ لیں۔ جو قوم آج تک اپنے لئے کھڑی نہیں ہو سکی وہ کشمیر کے لئے ایک گھنٹہ تو کیا کئی دن بھی کھڑی ہو جائے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مجھے انڈیا کی ایک مشہور فلم 'میری جنگ' کا ایک ڈائیلاگ یاد آ گیا کہ جب فلم کا ہیرو انیل کپور جو کہ ایک وکیل ہوتا ہے اپنے مخالف وکیل امریش پوری سے کیس ہار رہا ہوتا ہے۔ ابھی کیس کا فیصلہ ہوا نہیں ہوتا۔ انیل کپور شدید تناو کی حالت میں ایک دن اپنے ہی ساتھ سکواش squash کھیل رہا ہوتا ہے اور زور زور سے دیوار پہ شاٹیں مار رہا ہوتا ہے۔ تاہم اس دوران امریش پوری وہاں آتا ہے اور انیل کپور سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ اکیلے کھیل رہے ہو! چلو اچھا ہے۔ ہارنے کا ڈر تو نہیں ہو گا۔ یہ کہہ کہ امریش پوری زور کا قہقہہ مارتا اور وہاں سے چلا جاتا ہے۔
ہم بھی اکیلے ہی کھیل رہے ہیں۔ بار بار دشمن کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر تم نے اینٹ پھینکی تو ہم پتھر سے جواب دیں گے۔ لیکن زخمی انسان پتھر سے بھی ہوتا ہے اور اینٹ سے بھی۔ اور جنگ میں پتھر اور اینٹ میں کچھ خاص فرق نہیں ہوتا۔ کاش کے ہمارے حکمران ان جملہ بازیوں سے نکل کر کچھ ہوش کے ناخن لیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ انڈیا ہم پہ حملہ نہیں کرے گا۔ آخر یہ ہم کن چکروں میں پڑ گئے ہیں۔
کشمیر کے مسئلے کو ہم نے مذاق بنا دیا ہے۔ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں بھی اکثر ایک دوسرے سے جب کوئی مسئلہ طویل ہو جائے تو کہتے ہیں کہ تم نے کیا اس مسئلے کو مسئلہ کشمیر بنا دیا ہے، بس بات کو ختم کرو۔ ہم نے پاکستان کی تخلیق سے اب تک کشمیر پر صرف اور صرف سیاست کی ہے اور اب جب انڈیا نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس نے کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا حصہ بنانا ہے تو ہم نے ڈرامے بازیاں شروع کر دی ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں بھارت پہ حملہ کر دینا چاہیے۔ گزارش محض اتنی ہے کہ آج کی جنگ کے محرکات تو سمجھیے۔ آج کی جنگ معیشت کی جنگ ہے۔ ایک وقت ضرور تھا کہ جب جس سلطنت یا ملک کی فوج مضبوط ہوتی تھی وہی طاقتور ہوتا تھا۔ لیکن آج کے دور میں کسی ملک کی فوج چاہے جتنی بھی مضبوط کیوں نہ ہو وہ معیشت کی جنگ نہیں جتوا سکتی اور نہ ہی محاذ کی جنگ۔ بھارت نے اس معاشی جنگ میں ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
وہ اعزازات جن سے مودی کو ہمارے دوست مسلم ممالک نے نوازا ہے وہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں۔ چونکہ ہماری فوج بہت مضبوط ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم گھوڑے بیچ کے سو جائیں۔ کہتے ہیں نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا تو دشمن بھی دانا ہے اور ہمارے دوست بھی۔ ایک ہم ہی نادان ہیں۔
(ازراہ تفنن)