مقبوضہ کشمیر کی صورتحال جو دیکھائی جا رہی ہے یا سامنے آرہی ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار جو پاکستانی عوام کو بتا رہے ہیں کہ 80 لاکھ کشمیری اپنے گھروں میں محصور ہیں، کشمیری بھوکے پیاسے ہیں، ادویات نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ جبکہ وادی کے حالات بتائے جانے والے حالات سے کئی گنا بدتر ہیں۔
کشمیری صرف گھروں میں ہی محصور نہیں ہیں بلکہ انڈین آرمی مسلسل آپریشن کر رہی ہے۔ اب تک ہزاروں کشمیری گرفتار کیے گئے ہیں اور کیے جارہے ہیں۔ گرفتاریوں کے دوران بدترین تشدد کیا جاتا ہے۔ عورتوں کی عصمت دری کی جارہی ہے۔ نوجوانوں کو شہید کیا جارہا ہے۔ شوپیاں، بڈگام، سوپور، اننت ناگ، اسلام آباد، راجوری، بالاکوٹ، منیڈھیر، پونچھ، جموں، پیر پنجال، ڈوڈہ، بھدروہ اور خطہ چناب سمیت سرینگر کے اطراف میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے اہلکار لوگوں کو گھروں سے باہر نکال نکال کر ما رہے ہیں۔ وادی میں کربلا کی سی صورتحال ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال انسانی المیہ کا موجب بنتی نظر آرہی ہے۔ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں بالخصوص ایل او سی کے قریبی علاقوں میں ریپڈ ایکشن فورس کی مزید نفری بھیج دی ہے۔ جدید ٹینک اور آرٹلری پہنچائی جارہی ہے۔ دہلی کے ارادے خطرناک ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کے خلاف بڑی کارروائی کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس ضمن میں انڈین سرکاری مشینری غیر ریاستی طلبہ ،سیاح اور دیگر غیر ریاستی لوگوں کو گاڑیوں میں بھر بھر کا ریاست سے باہر نکال کر لے جا رہی ہے۔ جس سے یہ صاف نظر آتا ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت ریاست میں خون کی ہولی کھیلنے جارہی ہے۔
گزشتہ دنوں کی نسبت حالات تیزی کے ساتھ مزید خراب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کشمیری عوام کے حوصلے اور استقامت کے آگے انڈین آرمی اور مودی سرکار بھڑک رہی ہے اور انتہائی اقدام کے لئے پیش قدمی کر رہی ہے۔ صورتحال انتہائی سنگین رخ اختیار کر گئی ہے۔
اس موقع پر پاکستان کی حکومت کو نعروں، دھمکیوں، بیانات اور نیم سفارتکاری سے نکل کر بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بین الاقوامی برادری کو متوجہ کیا جا سکے اور مودی اپنے گھناؤنے اور شرمناک عمل سے پچھے ہٹ جائے اور کشمیریوں کی نسل کشی سے باز رہے۔
وزیراعظم عمران خان مظاہروں کی خود قیادت کریں۔ اپوزیشن کی جماعتیں بھی مودی سرکار کی بربریت کے خلاف احتجاج کو منظم کریں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اب تک کشمیریوں کے ساتھ جو اظہار یکجہتی کے مظاہرے ہوئے ہیں۔ وہ محض خود نمائی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہر کسی نے اپنی دکان چمکانے کی کوشش کی ہے۔ رسمی مظاہرے کیے گئے ہیں۔ غم و غصہ کا اظہار نظر نہیں آیا اور نہ ہی مظاہروں کا تسلسل ہے نہ ہی اجتماعیت ہے۔
گستاخی سخن معاف وزیراعظم عمران خان سمیت دبنگ سپہ سالار کے جذبات بھی کچھ گرم نہیں ہیں۔ بصورت دیگر مظاہروں کی حوصلہ افزائی تو ضرور کی جاتی اور احتجاجی جلسے کر کے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا جانا چاہیے تھا۔ کوئی یوم سیاہ، پہیہ جام ہڑتال، شٹر ڈاون، انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی۔ انسانی ڈھال کا مظاہر ہ کیا جاتا، کچھ تو کیا جاتا۔ اگر دال میں کچھ کالا نہیں ہے تو پھر جذبات کی ٹھنڈک کا مرض کیونکر ہے۔
کشمیر ایشو پر پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسے ٹھنڈے مظاہرے نہیں ہوئے ہیں۔ جان کی امان ہو تو عرض ہے کہ اب بھی وقت ہے۔ انسانی المیہ جنم لینے کا انتظار مت کیجیے۔ کشمیریوں کی خاطر ایک دن کے لئے پوری پاکستانی عوام باہر نکلے۔ آئیے! آزادی کشمیر کارواں میں شامل ہو کر 20 ستمبر کو راولپنڈی سے چکوٹھی مظفرآباد تک کشمیریوں کے زخموں کا مرہم بنیں۔
تحریک صوبہ پوٹھوہار نے چیئرمین راجہ اعجاز اور چیف آرگنائزر ارشد سلہری کی قیادت میں قدم اٹھایا ہے۔ آئیے! اکیلے ہیں، تنظیم ہے۔ فورم ہے یا سیاسی، مذہبی جماعت ہے۔