میں کراچی کے ایک مرکزی امام بارگاہ میں پچھلے 10 سال سے مسلسل مجلس سننے جاتی ہوں۔ کل جب میری سڑک کی طرف والا لاؤڈ سپیکر خراب ہو گیا تو میں نے ایک چودہ پندرہ سال کے بچے کو روکا اور کہا کہ بیٹا سپیکر تو کھلوا دو۔ اس بچے نے بڑی عاجزی سے مجھے کہا آنٹی، بارش کی وجہ سے تار خراب ہے، ہم کام کر رہے ہیں۔ آپ سے معذرت۔ یہ بچہ ایک سکاؤٹ تھا۔ تمیز، تہذیب، صبر، عاجزی اور نظم و ضبط کی بہترین مثال اگر دیکھنی ہو تو پاکستان سکاؤٹس کے شیعہ رضاکاروں کو دیکھیے۔ پاکستان میں پورے ملک سے اس وقت تقریباً آٹھ لاکھ سے اوپر رجسٹرڈ سکاؤٹس ہیں جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔
شیعہ سکاؤٹ بالخصوص محرم اور صفر کے مہینے میں متحرک ہو جاتے ہیں اور جذبہ حسینی کی خاطر رضاکارانہ طور پر مجلس جلوس میں آنے والے عزاداروں کی خدمات میں کوشاں ہوتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد دنیا میں جو تبدیلیاں آئیں وہ الگ لیکن جو نقصان اور خطرہ پاکستان کی شیعہ برادری نے مول لیا وہ الگ ہے۔
سب سے زیادہ آسان اور کھلا ہدف محرم کے جلوس اور مجالس ہوتی ہیں، جہاں ہزاروں کی تعداد میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے ماننے اور چاہنے والے جمع ہوتے ہیں۔ ایسی جگہوں کو محفوظ بنانا یقیننا ایک انتہائی مشکل کام ہے جو اکیلے پاکستان کے حفاظتی ادارے جیسے آرمی، رینجرز اور پولیس نہیں کر سکتے۔
ایسے وقت میں شیعہ سکاؤٹس کے رضاکار عوام اور اداروں کے بیچ میں رابطے کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ کوئٹہ ہو یا کراچی، گلگت ہو یا پاراچنار یہ رضاکار اپنی جان ہتھیلی پر لیے تمام خطرات سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی عزادار حسینی کی حفاظت کو اولین فرض سمجھتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سکاؤٹس کی حفاظت کے لئے بھی کوئی اقدامات ہیں؟
سرور حسین (سردار) صاحب 1977 سے پاکستان سکاؤٹس کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس وقت سندھ سکاؤٹس کے محرم کوارڈینیٹر اور کراچی اوپن ڈسٹرکٹ کے رجسٹرار بھی ہیں۔ سردار صاحب کا ماننا ہے کہ سکاؤٹس ایک رضاکارانہ خدمت ضرور ہے لیکن اچھا ہوگا اگر مختلف سکاؤٹس انجمن گروپ کی صورت میں لائف انشورنس یا میڈیکل انشورنس جیسی سہولیات کا سوچیں۔ سردار صاحب کے مطابق محرم سے پہلے سندھ رینجرز اور سندھ پولیس سکاؤٹس کو ممکنہ ٹریننگ دیتی ہے جس میں بم ڈسپوزل، دہشت گردی کے حملے کی روک تھام اور چیکنگ وغیرہ شامل ہوتی ہے۔
زین 29 سال کے ہیں، 2 بیٹیوں کے باپ اور کراچی میں ایک جانے مانے امام بارگاہ میں 12 سال سے سکاؤٹ کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ زین کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو اگر سکاؤٹس اور ان سے منسلک انجمن کو چندے کی صورت میں عزادار بھی مدد کریں۔ اس سے حفاظتی اقدام لینے میں آسانی ہوگی۔ زین کہتے ہیں، جو پیسہ چندے کی صورت جمع ہوگا وہ سکاؤٹس کی ٹریننگ اور حفاظتی اقدام پر استعمال ہوگا، کیوںکہ جان سب کی قیمتی ہے۔
دوسری جانب سید عظیم ہیں جو 5 سال کی عمر سے العباس سکاؤٹس کراچی سے منسلک ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انہوں نے پچھلے 10 سالوں میں سکاؤٹس کو اپنی مدد آپ کے تحت بہتر ہوتے دیکھا ہے۔ امام بارگاہوں میں بہتر سیکورٹی آلات نصب کرنا، حفاظتی اداروں کے ساتھ مل کر نت نئی حفاظتی طریقے کار کا اقدام کرنا، یہ سب سکاؤٹس اب اور زیادہ دھیان اور جذبے سے کرتے ہیں کیوںکہ عزادار حسینی کا ان پر اندھا اعتماد ہے۔
پاکستان شیعہ سکاؤٹس آپ کو بلا کسی غرض کے کام کرتے نظر آئیں گے، چاہے وہ کراچی کی تیز بارش ہو، یا گلگت کی برفباری۔ شیعہ سکاؤٹس کی تربیتی اقدار باقی تمام سکاؤٹس سے قدرے مختلف ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ جلوس کے سامنے چلتے ہوئے جائیں گے لیکن شاید واپس نہ آئیں، ہو سکتا ہے حفاظتی چیکنگ کرتے ہوئے کوئی خودکش ان سے لپٹ جائے اور ان کا جنازہ بھی سلامت گھر نہ پہنچے۔
کیا ان سب باتوں کے باوجود کبھی کسی گھر والے یا پیاروں نے ان کو روکا خدمات حسینی سے؟
فروا کے والد صاحب کراچی کی مختلف سکاؤٹ انجمن کے ساتھ منسلک رہے اور کراچی میں ہونے والے دھماکوں اور تباہی کے عینی شاہد تھے۔ فروا کہتی ہیں، شہادت ہماری عقیدت کا بنیادی حصہ ہے۔ ہم کسی کو اس سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی اس کام کے لئے اپ کبھی کسی سکاؤٹ کو پیچھے ہٹتا دیکھیں گے۔ ہر دہشت گردی کے حملے کے بعد، شیعہ برادری اور زور و شور سے آگے آتی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم کفن پہن کر گھر سے نکلتے ہیں۔
عظیم جو کراچی میں تو سکاؤٹس کی خدمات انجام دیتے ہی ہیں، ساتھ میں عراق میں بھی عاشورہ اور اربعین کے رضاکار ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ آپ کسی کو اس نیک عمل سے روک نہیں سکتے۔ دوران مجلس آپ کا کبھی بھی اتفاق ہو تو آپ سکاؤٹ سے پوچھیں کہ وہ کب سے یہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور کیوں؟ عمومی طور پر یہ بچپن سے ہی سکاؤٹ میں آجاتے ہیں اور "حسینؑ کی خدمت" کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، سکاؤٹس کے جوان اور بوڑھے اپنی روز مرہ کی زندگی کو محرم کیلنڈر کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں۔
جو سٹوڈنٹس ہوتے ہیں وہ تعلیمی مصروفیت ختم کرتے ہی امام بارگاہ اور انجمن کا رخ کرتے ہیں۔ دفتر جانے والے یا تو جلدی چھٹی لیتے ہیں یا پھر پہلے عشرے میں مکمل چھٹیاں لیتے ہیں۔ زین، اپنے دفتر کی چھٹیاں بچا کر رکھتے ہیں تاکہ محرم میں کام آسکیں۔
سکاؤٹس، ایام حسینی میں اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے خود کو بھول جاتے ہیں اور صرف اپنا رضاکارانہ فرض یاد رکھتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف انسانیت کی خدمت ہوتا ہے جو مسلک، مذہب ہر چیز سےبالاتر ہے۔
عظیم بتاتے ہیں کہ محرم کے شروع 10 دن، سکاؤٹس آرام بھول جاتے ہیں۔ یہ مسلسل مجلس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک خدمات میں مصروف رہتے ہیں۔ گاڑیاں پارکنگ میں لگوانے سے لے کر چیکنگ تک ہر چھوٹا بڑا حفاظتی اقدام ان کے سر ہوتا ہے، جس کی اجرت کوئی نہیں لیکن لطف بہت ہے۔
پاکستان سکاؤٹس بالخصوص محرم میں آپ کی خدمت میں لگے ہوتے ہیں۔ ان کے لئے نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی، نہ ہندو، نہ عیسائی۔ ان کے لئے سب انسان ہیں جن کی خدمت ایام حسینی میں سکاؤٹس خود پر فرض سمجھتی ہیں۔ وقت بدل رہا ہے، ملکی حالات بدل رہے ہیں اور اس میں یہی امید کی جا سکتی ہے کے شیعہ نگران اور انجمنیں سکاؤٹس کی ذاتی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بہتر اقدام لیں گی۔