Get Alerts

محرم الحرام اور ہماری ذمہ داریاں

محرم الحرام اور ہماری ذمہ داریاں
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ ’’محرم‘‘ کا لفظ حرمت سے نکلا ہے۔ حرمت کے لفظی معنی عظمت، احترام کے ہیں ہے۔ اس بنا پر محرم کا مطلب احترام اورعظمت والا مہینہ ہے۔ چونکہ یہ مہینہ بڑی عظمت اور فضیلت رکھتا ہے اور بڑا مبارک اور لائق احترام ہے اس لئے اسے محرم الحرام کہا جاتا ہے۔

یوں تو پورا مہینہ ہی مبارک ہے مگر جس طرح رمضان کا آخری عشرہ پہلے دو عشروں سے افضل ہے اور آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کی رات سب سے افضل ہے، اسی طرح اس مہینہ میں عاشورہ کا دن تمام ایام سے افضل ہے۔ عاشورہ کا مطلب دسواں دن ہے، یہ دن چونکہ دسویں تاریخ کو آتا ہے اس لئے اسے یومِ عاشورہ کہتے ہیں۔

محرم الحرام وہ ماہ مقدس ہے جس کی اہمیت قبل از اسلام بھی مسلم تھی۔ اسلام کے قبل چار مہینے حرمت والے مہینے کہلاتے تھے جن میں محرم بھی تھا۔ اسی وجہ سے یہ اب بھی حرمت والے مہینوں میں شمار ہوتا ہے، ماہ محرم جہاں ایک طرف حق بات کہنے اور نتائج کی پرواہ کئے بنا اپنے اصولی موقف پر ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے وہیں اپنے اندر بے پناہ غم و اندوہ چھپائے، صبر و استقامت، اپنے دینی و دنیاوی معاملات کو مشیت الہی کے سپرد کرنے اور اللہ کریم کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔

اس مہینہ کی دس تاریخ کے روزے کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں میں اس روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے۔ آپ ﷺ نے ماہِ محرم میں روزہ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔

حضرت ابو حریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’افضل ترین روزے رمضان کے بعد ماہ محرم کے ہیں، اور فرض کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے۔‘‘

یومِ عاشورہ کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی تاریخ کے بے شمارعظیم واقعات اس ماہ میں وقوع پذیر ہوئے جن میں یوم عاشورہ میں آسمان و زمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیا گیا، سرفہرست ہے۔ اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہو کر کوہِ جودی پر لنگر انداز ہوئی اور اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ''خلیل اللہ“ کا لقب عطا ہوا۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کا دن بھی یہی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی جبکہ اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی اور ان پر تورات کے نزول کا دن بھی یہی ہے۔ اسی دن کی برکت سے حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔ حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے، ان کی توبہ قبول ہوئی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں یہودیوں کے شر سے نجات دلا کر آسمان پر اٹھایا گیا۔ قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف دس محرم کو ڈالتے تھے۔

حضورﷺ کے حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ نکاح کا دن بھی یہی ہے اور اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔ (بحوالہ نزہة المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸، معارف القرآن پ ۱۱ آیت ۹۸۔ معارف الحدیث ۴/۱۶۸)

ماہ محرم نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ اور ان کے 72 جانثار ساتھیوں کی یاد دلاتی ہیں۔ درسِ حسینؓ زندگی بھر کی ہدایت کیلئے کافی ہے کیونکہ خانوادہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس طرح دینِ اسلام کی حفاظت کا حق ادا کیا قیامت تک کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ہمارے دین کی حفاظت کا ذمہ بیشک اللہ تعالی کے ہی ہاتھ اور اس کی قدرت میں ہے تاہم اللہ تعالی نے اپنے پیغام حق کو اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے ابنیاؑ کو وسیلہ بنایا۔ جنہوں نے قربانیوں کا ایک عظیم سلسلہ جاری رکھا۔ امام حسینؓ اور ان کے 72 جانثار ساتھیوں کی قربانی بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔

گویا آج کربلا کا واقعہ محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک حقیقت بن چکی ہے۔ واقعہ کربلا کی حقیقت کو سمجھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ کربلا صبر و استقامت کی ایسی داستان ہے جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ حضرت امام حسینؓ سے محبت کے لئے کسی ایک خاص فرقہ کا پیروکار ہونا ضروری نہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ عقیدت حسینؓ کسی ایک مذہب اور فرقہ کی قید سے آزاد ہے۔ امام حسینؓ کے غم میں ہم سب شریک ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ امام عالی مقامؓ ہر اس انسان کے امام ہیں جس کا ضمیر زندہ ہے، جس میں آدمیت اور محبت انسانیت پائی جاتی ہے۔

آج ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم امام حسینؑ کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے حق کی بقا کےلئے ہر قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے۔ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی سر بلندی کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ہم واقعہ کربلا کی حقیقت اور اصل روح کو صحیح معنوں میں سمجھ کر اس پر عمل کو یقینی بنائیں گے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کے لئے آسانیاں پیدا کرے، آمین۔