7 ستمبر کو یوم فضائیہ کیوں منایا جاتا ہے؟

1965 کی جنگ میں پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے 104 طیارے مار گرائے۔ ان میں سے 53 طیارے پہلے دو دن میں ہی تباہ کر دیے گئے تھے۔ پاکستانی فضائیہ کے 19 طیارے بھارتی فضائیہ نے تباہ کیے۔ اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کی فضائیہ پیشہ ورانہ معیار اور کارکردگی میں کسی سے کم نہیں۔

7 ستمبر کو یوم فضائیہ کیوں منایا جاتا ہے؟

پاکستان میں ہر سال 6 ستمبر کو یوم دفاع جبکہ 7 ستمبر کو یوم فضائیہ منایا جاتا ہے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان فضائیہ کی جانب سے کلیدی کردار ادا کرنے کی وجہ سے 7 ستمبر کو پاکستان میں یوم فضائیہ منایا جاتا ہے۔ اس دن پورے ملک میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور پاک فضائیہ کے شہدا کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔

7 ستمبر کو پاکستان میں یوم فضائیہ کیوں منایا جاتا ہے، آج ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈیں گے۔

6 ستمبر کی صبح جب بھارت نے پاکستان پر اچانک حملہ کیا تو بھارتی ایئر فورس کے طیارے پاکستانی سرحدوں میں گھس آئے۔ پی اے ایف بیس سرگودھا پہ کھڑے پاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے دشمن طیاروں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد پاک فضائیہ نے دشمن کے ہوائی اڈوں پر بھی جوابی حملہ کیا اور لدھیانہ ، جالندھر، بمبئی اور کلکتہ کے ہوائی اڈوں پر حملہ کر کے دشمن کے کئی طیارے تباہ کر دیے۔ اس کے علاوہ پاکستانی فضائیہ نے پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر بھارت کے لڑاکا طیاروں کو اڑان بھرنے سے پہلے ہی تباہ کر دیا اور بغیر کسی مزاحمت کے سرینگر ہوائی اڈے کو بمباری سے تباہ کرکے ناقابل استعمال بنا دیا۔ اس دن پاک فضائیہ نے مجموعی طور پر دشمن کے 31 طیارے تباہ کیے۔

اگلے روز 7 ستمبر کو پاکستانی فضائیہ کے ایک اسکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم نے ایک منٹ سے بھی کم دورانیے میں بھارت کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرائے۔ ایم ایم عالم کا یہ معرکہ آج تک فضائیہ کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ اس جنگ میں بھارتی پیش قدمی کو روکنے کے لیے پاکستانی فضائیہ نے سب سے اہم کردار نبھایا تھا۔ زمین پر لڑنے والی بری فوج کو اگر پاک فضائیہ کی معاونت حاصل نہ ہوتی تو جنگ کا نتیجہ کچھ اور بھی ہو سکتا تھا۔

پاکستانی فضائیہ کی جانب سے یوں تو ہزاروں نوجوانوں نے قابل ذکر کارنامے سرانجام دیے مگر ہم یہاں تین ہوا بازوں کے بارے میں تفصیل سے بات کریں گے۔

اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم

ایم ایم عالم 6 جولائی 1935 کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام محمد محمود عالم تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان ڈھاکہ ہجرت کر گیا۔ وہ 1952 میں پاک فضائیہ میں بھرتی ہوئے اور 1953 میں انہیں کمیشن ملا۔

1965 کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے اسکواڈرن لیڈر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ 7 ستمبر کی صبح دو بھارتی طیارے سرگودھا ایئر بیس پر حملہ آور ہوئے۔ ایم ایم عالم نے جوابی حملے میں ان میں سے ایک طیارہ مار گرایا جبکہ دوسرے طیارے کا پیچھا کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں فضا میں مزید بھارتی طیارے نظر آئے جو پاکستان کی طرف آ رہے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب ایم ایم عالم نے وہ معرکہ سرانجام دیا جس کی وجہ سے پاک فضائیہ کو بھارتی فضائیہ پر واضح برتری حاصل ہوگئی۔ اپنے حملے میں انہوں نے چار مزید بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے۔ یوں انہوں نے ایک منٹ سے بھی کم دورانیے میں بھارت کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرائے۔ فضائی تاریخ میں یہ اب تک ایک ریکارڈ ہے۔ سترہ روزہ جنگ میں انہوں نے مجموعی طور پر بھارت کے 9 طیارے تباہ کیے اور 2 طیاروں کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس بے مثال بہادری پر پاکستانی حکومت کی جانب سے انہیں دو بار ستارہ جرات سے نوازا گیا۔ انہیں ستارہ امتیاز بھی عطا کیا گیا۔

1982 میں ایم ایم عالم ایئر کموڈور کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ پاک فضائیہ میں انہیں لٹل ڈریگن بھی کہا جاتا تھا۔

آخری عمر میں وہ پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا ہوگئے۔ طویل علالت کے بعد 18 مارچ 2013 کو کراچی میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ مسرور ایئر بیس میں سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور انہیں شہدا کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔

اسکواڈرن لیڈر سیسل چودھری

سیسل چودھری 27 اگست 1941 کو لاہور میں ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ انتھونی سکول لاہور سے حاصل کی۔ ایف سی کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ 1958 میں پاکستان فضائیہ میں شامل ہوگئے۔ سیسل چودھری پاکستان کے معروف فوٹو جرنلسٹ ایف ای چودھری کے صاحبزادے تھے۔

1965 کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کئی بھارتی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور بھارتی فضائیہ کے 3 طیارے مار گرائے۔ ایک مرتبہ بھارت کی فضا میں لڑے جانے والے ایک معرکے میں سیسل چودھری کے جہاز کا ایندھن بہت کم رہ گیا۔ سرگودھا ایئربیس تک واپسی ناممکن تھی۔ جہاز کو محفوظ علاقے میں لے جا کر اس سے پیراشوٹ کے ذریعے نکلا جا سکتا تھا مگر اس وقت ایک ایک جہاز پاکستان کے لیے قیمتی تھا۔ اسی تناظر میں سیسل چودھری نے ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ وہ بچے کھچے ایندھن کی مدد سے جہاز کو انتہائی بلندی تک لے گئے اور پھر اسے گلائیڈ کرتے ہوئے سرگودھا کے ایئربیس پر اتار دیا۔ اس سے پہلے کسی پاکستانی ہواباز نے جنگی جہاز کو گلائیڈ نہیں کیا تھا۔ اس جنگ میں ان کی بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ جرات اور تمغہ جرات کے اعزازات سے نوازا۔

1978 کے آخر میں سیسل چودھری کو برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے میں ملڑی اتاشی بنا کر بھیجا گیا مگر انہیں فوراً واپس بلا لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے مطابق یہ ایک حساس عہدہ تھا جس پر کسی مسیحی کو تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ ستمبر 1979 میں انہیں ڈیپوٹیشن پر عراق بھیجا گیا اور وہاں انہوں نے عراقی ہوابازوں کو تربیت دی۔ عراق میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں عراق کا سب سے بڑا غیر فوجی اعزاز دیا گیا۔ عراق سے واپسی پر سیسل چودھری کی اعلیٰ عہدے پر ترقی متوقع تھی لیکن سیسل کو احساس ہوا کہ مذہب کو بنیاد بنا کر ان کی ترقی کو روک دیا گیا ہے اور ان سے کم قابلیت رکھنے والوں کو ان سے اوپر ترقی دے دی گئی ہے۔ چنانچہ 1986 میں دل شکستہ ہو کر انہوں نے پاک فضائیہ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد وہ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے اور کئی برس تک سینٹ انتھونی سکول لاہور کے پرنسپل کی حیثیت سے فرائص انجام دیتے رہے۔ بعد میں وہ سینٹ میری اکیڈمی راولپنڈی کے پرنسپل بن گئے۔ انہوں نے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

آخری عمر میں وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہو گئے اور 13 اپریل 2012 کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ انہیں جیل روڈ لاہور کے پاس واقع قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

اسکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی

سرفراز احمد رفیقی مشرقی پاکستان کے شہر راج شاہی میں 18 جولائی 1935 کو پیدا ہوئے۔

یکم ستمبر 1965  کو چھمب کے مقام پر پاک فضائیہ کے ہوابازوں کا بھارتی ایئر فورس کے ہوابازوں سے پہلا ون ٹو ون مقابلہ ہوا۔ اسکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی نے فلائیٹ لیفٹیننٹ امتیاز احمد بھٹی کے ساتھ اپنے ایف 86 طیاروں کے ساتھ 4 بھارتی لڑاکا طیاروں کو مار گرایا۔

6 ستمبر کی شام کو انہیں بھارتی فضائی اڈے ہلواڑا پر حملہ کرنے کا حکم ملا تاکہ لاہور کا دفاع کیا جا سکے۔ اس مشن میں سرفراز احمد رفیقی نے چار جنگجو طیاروں کی قیادت کی۔ ایک بھارتی طیارہ مار گرانے کے بعد ان کی مشین گن جام ہو گئی مگر میدان چھوڑ کر جانے کی بجائے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو حملہ جاری رکھنے پر آمادہ کیا اور خود پیچھے سے ان کی حفاظت کرنے لگے۔ اس طرح نہتے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے فارمیشن کو برقراررکھا۔ اسی دوران ایک بھارتی طیارے کی زد میں آ گئے اور شہید ہو گئے۔ سرفراز رفیقی کا طیارہ تباہ ہوا تو اس وقت سیسل چودھری ان کے ساتھ فضاؤں میں تھے۔ سیسل چودھری نے رفیقی شہید کے قاتل طیارے کو نشانہ بنا کر موقع پر ہی انتقام لے لیا۔

سرفراز رفیقی کو حکومت پاکستان نے ستارہ جرات اور ہلال جرات سے نوازا۔

1965 کی جنگ میں پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے 104 طیارے مار گرائے۔ ان میں سے 53 طیارے پہلے دو دن میں ہی تباہ کر دیے گئے تھے۔ جبکہ پاکستانی فضائیہ کے 19 طیارے بھارتی فضائیہ نے تباہ کیے۔ اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کی فضائیہ پیشہ ورانہ معیار اور کارکردگی میں کسی سے کم نہیں ہے۔

اس جنگ میں مجموعی طور پر پاکستانی فضائیہ کی کارکردگی بھارت کے لیے بہت حیران کن رہی۔ پاکستانی فضائیہ کے ہوا بازوں نے عددی لحاظ سے اپنے سے چار گنا بڑے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا کر ثابت کر دیا کہ پاکستان ایک ناقابل تسخیر ملک ہے۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔