1965 کی جنگ پاکستان نے جیتی تھی یا بھارت نے؟

اس جنگ کا نتیجہ بھی وہی نکلا جو اکثر جنگوں میں نکلتا ہے؛ دونوں اطراف کے ہزاروں فوجی جاں بحق ہوئے، اسلحہ، بارود، طیارے تباہ ہوئے، جن جن علاقوں میں افواج نے پیش قدمی کی وہاں بسنے والے عام انسانوں کو نقل مکانی کرنا پڑی، کئی معصوم شہری بھی جنگ کا ایندھن بن گئے۔

1965 کی جنگ پاکستان نے جیتی تھی یا بھارت نے؟

نوٹ: یہ مضمون ایک سال پہلے شائع ہوا تھا۔ 6 ستمبر کی مناسبت سے اسے نیا دور قارئین کے لئے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

مطالعہ پاکستان اور دیگر درسی کتابوں میں پاکستان اور بھارت کے مابین لڑی جانے والی جنگوں کے بارے میں مختلف دعوے کیے جاتے ہیں۔ 1965 کی جنگ کے بارے میں سب سے پہلا دعوٰی یہ کیا جاتا ہے کہ یہ جنگ بلا اشتعال تھی اور بھارت نے رات کی تاریکی میں ہم پر مسلط کی۔

معروف صحافی وسعت اللہ خان لکھتے ہیں؛ 'سکولی نصاب کے مطابق بھارت نے 6 ستمبر کو رات کی تاریکی میں چھپ کر پاکستان پر حملہ کیا۔ مگر کیوں کیا؟ بھارت پر اچانک کوئی دماغی دورہ پڑا یا حملے کی کوئی خاص وجہ تھی؟ بچوں کو اس بابت کچھ نہیں بتایا جاتا۔ اور نا ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ اسے کامیاب جنگ کیوں کہا جاتا ہے؟' اس سوال کا جواب ہم نے گذشتہ مضمون میں ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔

اسی طرح پینسٹھ کی جنگ کے حوالے سے دوسرا دلچسپ دعوٰی یہ کیا جاتا ہے کہ یہ جنگ پاکستان نے واضح طور پر جیت لی تھی۔ 6 ستمبر کو ہر سال اسی لئے یوم دفاع پاکستان منایا جاتا ہے۔ دوسری جانب بھارت یہ دعویٰ کرتا ہے کہ 1965 کی جنگ میں پاکستان کو شکست ہوئی تھی۔

کیا یہ جنگ واقعی پاکستان نے جیتی تھی یا بھارت کا دعویٰ درست ہے؟ دونوں ہمسایہ ملکوں کی جانب سے کئے جانے والے مختلف دعوؤں میں کتنی سچائی ہے؟ آج ہم اسی سوال کا جواب ڈھونڈیں گے۔

اگرچہ پاکستان اور بھارت کے مابین 1965 کی جنگ باقاعدہ طور پر 6 ستمبر کو شروع ہوئی تھی مگر بیش تر تاریخ دانوں اور محققین کی رائے میں اس جنگ کا آغاز اپریل میں رن آف کچھ کے علاقے میں ہونے والی جھڑپوں سے ہو گیا تھا۔ اس تنازعے کے دوران امریکہ نے ثالثی کا کردار ادا کر کے ایک مرتبہ تو کشیدگی کو کم کروا دیا مگر تنازعہ پوری طرح ختم نہ کروایا جا سکا۔ اس کے بعد کے واقعات کی مختصر ٹائم لائن یہ ہے؛

*28 جولائی 1965 کو آپریشن جبرالٹر کے تحت پاکستان نے چند ہزار سویلین کشمیر کے راستے بھارت میں داخل کیے۔

آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد بھارت نے جوابی نقل و حرکت شروع کر دی اور درہ حاجی پیر کی اہم گزرگاہ پر 24 اگست کو قبضہ کر لیا جس کے سبب پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا علاقہ براہ راست خطرے میں آ گیا۔

*25 اگست کو بھارتی فوج نے دانا کے مقام پر قبضہ کر لیا۔ اب بھارتی فوج مظفر آباد کے قریب پہنچ گئی تھی۔

*28 اگست کو بھارتی فوج نے درہ حاجی پیر پر قبضہ کر لیا۔

*31 اگست کو پاک فوج کی جانب سے آپریشن گرینڈ سلیم شروع کر دیا گیا۔ اس کا مقصد جموں کے علاقے اکھنور پر قبصہ کر کے بھارتی رسد کو کاٹنا تھا۔

*2 ستمبر کو اس آپریشن کی کمان میجر جنرل اختر حسین ملک سے لے کر میجر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دی گئی۔ انتہائی اہمیت کے حامل فوجی آپریشن کے عین بیچ میں کمان میں ہونے والی تبدیلی سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ میجر جنرل اختر حسین ملک احمدی تھے اور فوجی حلقے اس بات پر تشویش میں مبتلا تھے کہ اگر آپریشن کامیاب ہو گیا تو اس کی کامیابی کا سہرا ایک احمدی جنرل کے سر باندھا جانا ناقابل برداشت ہو گا۔ عین آپریشن کے بیچ میں پاکستانی فوج کی جانب سے ڈویژن کمانڈر کی تبدیلی کے فیصلے نے آپریشن کی کامیابی کے امکانات مسدود کر دیے۔ پاکستانی پیش قدمی رکی تو اگلے 24 گھنٹوں میں بھارت نے اس محاذ پر اپنی فوجی حیثیت مستحکم کر کے آپریشن گرینڈ سلیم کا راستہ بھی روک دیا۔

*4 ستمبر کو دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر ارشد حسین نے ترک سفارت خانے کے توسط سے دفتر خارجہ کو پیغام بھیجا کہ بھارت اگلے 48 گھنٹے میں سرحد پار کرنے والا ہے مگر سیکرٹری خارجہ عزیز احمد اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس پیغام کو یہ سوچ کر دبا دیا کہ ارشد حسین ضرورت سے زیادہ پریشان ہو رہا ہے کیونکہ انہیں انتہائی ذمہ دار بین الاقوامی ذرائع یقین دہانی کروا چکے تھے کہ بھارت ایسی حماقت نہیں کرے گا۔ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ذرائع کون تھے۔

*6 ستمبر کو بھارتی فوج نے بین الاقوامی سرحد عبور کر لی جس کی اطلاع جنرل ایوب خان کو صبح 4 بجے کے قریب ملی۔ اس کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ پاکستان کے کچھ علاقے بھارت اور بھارت کے کچھ علاقے پاکستان کے قبضے میں آ گئے۔

*7 ستمبر کو چینی قیادت کی جانب سے بھارت کو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ اپنی مہم جوئی فوراً روک دے۔ اس کے ساتھ ہی لداخ سے متصل چینی سرحد پر تھوڑی بہت نقل و حرکت بھی شروع ہو گئی۔

*8 ستمبر کو امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کے لئے بھارت اور پاکستان کو اسلحے کی رسد معطل کر رہا ہے۔ اسی دن کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ خان نے صدر مملکت کو آگاہ کیا کہ فوج کو ایمونیشن کی قلت کا سامنا ہے۔

*10 ستمبر کو پاک فضائیہ کے اس وقت کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان کو کچھ اضافی طیاروں اور زمینی ہتھیاروں کی ہنگامی رسد کی درخواست کے ساتھ بیجنگ بھیجا گیا اور یہ اپیل کی گئی کہ چین یہ ہتھیار انڈونیشیا کے راستے بھجوائے تا کہ کھلم کھلا چینی ہتھیار ملنے پر پاکستان کو امریکی خفگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ چین نے یہ رسد خفیہ ہی رکھی۔ انڈونیشیا نے بھی ہتھیاروں کی ایک کھیپ پاکستان کے لیے بھجوائی۔ ایئر مارشل اصغر خان نے اسی غرض سے ایران اور ترکی کا بھی دورہ کیا۔

*11 ستمبر کو سیکرٹری دفاع نذیر احمد نے جنرل ایوب خان کو بتایا کہ بعض ممالک نے پاکستان کو اسلحہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔

*15 ستمبر کو صدر ایوب خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر جانسن سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے میں قیام امن کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔

*17 ستمبر کو چین نے ایک بیان جاری کیا جس میں بھارت سے کہا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے۔ پاکستان نے چین کے اس بیان کا خیر مقدم کیا۔

*19 اور 20 ستمبر کی درمیانی شب صدر ایوب خان وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پشاور سے ایک خصوصی طیارے میں سوار ہو کر بیجنگ پہنچے۔ اس خفیہ دورے میں عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم چو این لائی نے پاکستان کو مذاکرات کی میز پر آنے کے بجائے ایک طویل جنگ لڑنے کا مشورہ دیا۔ ان کے مطابق امریکہ اور روس دونوں ناقابل اعتبار ہیں اور پاکستان کو ان کے سامنے جھکنا چاہئیے اور نا ہی ان پر اعتبار کرنا چاہئیے۔ مگر صورت حال یہ تھی کہ پاکستانی حکام ایک طویل جنگ لڑنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ بری اور فضائی افواج کے سربراہان بھی جنگ بندی کے خواہاں تھے کیونکہ بھارتی فوج کی عددی برتری کے سامنے پاکستانی فوج کی طاقت دن بدن کم ہوتی جا رہی تھی۔ جنرل موسیٰ خان اسلحہ اور اضافی پرزوں کی شدید قلت کی بنا پر حوصلہ ہارتے جا رہے تھے اور ایئر مارشل نور خان طیاروں کی روز بروز گھٹتی تعداد سے دل برداشتہ نظر آتے تھے۔ اس سارے تناظر میں پاکستان کو چین کے مشوروں کو نظرانداز کرنا پڑا۔

*20 ستمبر کو امریکہ اور سوویت یونین کی کوششوں سے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پیش ہوئی۔ پاکستان نے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے روانہ کیا تا کہ وہ سلامتی کونسل کے سامنے پاکستان کا مؤقف پیش کر سکیں اور اقوام متحدہ کو باور کروا سکیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیے بغیر جنگ کا خاتمہ ممکن نہیں۔

*22 ستمبر کو وزیر خارجہ بھٹو نے سلامتی کونسل میں دھواں دھار تقریر کی اور بھارت کے خلاف ہزار سال تک لڑتے رہنے کا نعرہ لگایا۔ ابھی ان کی تقریر جاری تھی کہ اسی دوران انہیں صدر ایوب خان کا ایک تار لا کر دیا گیا۔ اس تار میں صدر ایوب خان نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا۔ بھٹو نے تار کے مندرجات سلامتی کونسل کے ارکان کو پڑھ کر سنائے اور کہا کہ ان کا ملک جنگ بند کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا پڑے گا ورنہ پاکستان اقوام متحدہ سے الگ ہو جائے گا۔

*اسی روز بھارت نے بھی سلامتی کونسل میں بیان دے دیا کہ ہم جنگ بند کرنے کے لیے تیار ہیں چنانچہ 22 ستمبر کو پاکستان اور بھارت کے مابین محاذ پر خاموشی چھا گئی۔

*جنگ بندی کے فوراً بعد سوویت یونین نے پاکستان اور بھارت کے مابین صلح کروانے کی پیش کش کر دی۔

*10 جنوری 1966 کو تاشقند میں سوویت یونین کی ثالثی میں پاکستانی صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے ایک امن سمجھوتے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں بس ایک ہی سطر شامل تھی کہ فریقین نے ایک دوسرے کے مؤقف کو بغور سنا اور اپنی اپنی فوجیں 5 اگست 1965 کی پوزیشن پر واپس ہٹانے پر اتفاق کیا۔

یوں اپریل میں شروع ہونے والی جھڑپیں ایک باقاعدہ جنگ میں داخل ہو کر بالآخر تاشقند معاہدے پر ختم ہو گئیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کو جنگ میں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکی لائبریری آف کانگریس کے ریکارڈ کے مطابق 17 روز تک جاری رہنے والی اس جنگ میں پاکستان کے 3800 جبکہ بھارت کے 3000 فوجی ہلاک ہوئے۔ پاکستانی فوج کے دعوؤں کے مطابق انہوں نے بھارتی فوج کے 20 آفیسر، 19 جونیئر کمیشنڈ آفیسر اور 569 دیگر رینک کے سپاہی قید میں لیے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے جنگ کے آغاز ہی میں 7 اور 8 ستمبر کی درمیانی رات کو بھارتی سرحد کے اندر سات سے آٹھ میل تک پیش قدمی کی اور کھیم کرن کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

1965 کی پاک بھارت جنگ کے بارے میں بھارت میں بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ 1965: A Western Sunrise کے مصنف اور معروف تاریخ دان شو کنال ورما لکھتے ہیں کہ جنگیں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے لڑی جاتی ہیں۔ اسی مقصد کی کامیابی یا ناکامی کی بنیاد پہ جنگ کی جیت اور ہار کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ 1965 کی جنگ کے پیچھے پاکستان کا مقصد کشمیر حاصل کرنا تھا اور پاکستان یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کو اس جنگ میں شکست ہوئی۔ مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ جس انداز میں ہوا اسے ہم بھارت کی بھی فیصلہ کن جیت نہیں قرار دے سکتے۔ ان کے مطابق اس جنگ میں 5800 پاکستانی فوجی جاں بحق ہوئے اور ہزاروں زخمی ہوئے جبکہ بھارت کے 2763 فوجی ہلاک ہوئے، 8444 زخمی جبکہ 1507 لاپتہ ہو گئے۔ پاکستان کے 475 ٹینک تباہ ہوئے جبکہ ان کے مقابلے میں بھارت کو محض 80 ٹینکوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ مصنف نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جنگ میں پاکستانی فضائیہ نے ہر لحاظ سے بھارتی فضائیہ کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

بھارتی دعوؤں کے مطابق بھارت نے پاکستان کے 740 مربع میل رقبے پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ پاکستان کے ہاتھ بھارت کا محض 210 مربع میل رقبہ آیا۔ تاہم، آسٹریلوی اخبار The Australian کے مطابق یہ جنگ پاکستان کی فتح پر منتج ہوئی۔ شو کنال ورماکے مطابق جنگ میں فتح یا شکست کا فیصلہ سیاسی مقصد کے حصول سے نتھی ہے۔ انڈین ایکسپریس کے ستمبر 1965 کے شماروں میں بھارتی سپہ سالار دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ لاہور پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، وہ ایساکر نہیں پائے۔ بھارتی فوج کی تعداد پاکستان سے ساڑھے چار گنا زیادہ تھی۔ پاکستان کا اس جنگ میں اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کے سامنے دفاع کرنا ہی اس کی فتح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان 6 ستمبر کو ہر سال یومِ دفاع مناتا ہے۔ مگر یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ دفاع تو اس صورت میں کیا جاتا ہے جب دوسرا فریق آپ پر حملہ کرے جبکہ 1965 کی جنگ کی شروعات پاکستان ہی کی جانب سے کی گئی تھی۔

بہرکیف اوپر بیان کیے گئے حقائق جو نقشہ کھینچتے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1965 کی جنگ میں پاکستان اور بھارت دونوں ہی اپنے اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ کوئی بھی ملک دوسرے کو فتح کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ پاکستانی فوج بھارت کو فیصلہ کن شکست سے ہمکنار کرنے میں ناکام رہی جبکہ بھارتی فوج کے کمانڈرز جنگ میں فتح یاب ہونے کے بعد لاہور میں ناشتہ نہ کر سکے۔ دونوں افواج نے مخالف ملک کے علاقوں میں جتنی پیش قدمی کی، جتنے علاقے فتح کیے، معاہدہ تاشقند کے تحت وہ ساری فتوحات منسوخ ہو گئیں۔ اس جنگ کا نتیجہ بھی وہی نکلا جو اکثر جنگوں میں نکلتا ہے؛ دونوں اطراف کے ہزاروں فوجی جاں بحق ہوئے، اسلحہ، بارود، طیارے تباہ ہوئے، جن جن علاقوں میں افواج نے پیش قدمی کی وہاں بسنے والے عام انسانوں کو نقل مکانی کرنا پڑی، کئی معصوم شہری بھی جنگ کا ایندھن بن گئے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کیلئے 1965 کی جنگ کسی کامیابی کے بغیر ختم ہوئی بلکہ اگر انسانی بنیادوں پہ نتیجہ نکالا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ 1965 کی جنگ میں پاکستان اور بھارت دونوں کو شکست ہوئی تھی۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔