معاہدہ تاشقند: کیا پاکستان نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار دی؟

معاہدہ تاشقند: کیا پاکستان نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار دی؟

پاکستان اور بھارت کے مابین 6 ستمبر 1965 کو چھڑنے والی جنگ سترہ روز تک جاری رہی۔ 22 ستمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی کروا دی۔ سیز فائر ہونے کے فوراً بعد روس نے پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی کو ختم کرنے اور ہمسایہ ملکوں کے مابین صلح کروانے کے لئے میزبان کا کردار ادا کرنے کی پیش کش کر دی۔

پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے روس کی میزبانی میں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی حامی بھر لی۔ صدر پاکستان ایوب خان اپنے سولہ رکنی وفد کے ہمراہ 3 جنوری کو سوویت یونین کی جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچے۔ ان کے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو، وزیر اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین اور وزیر تجارت غلام فاروق کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام شامل تھے۔ بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری بھی اسی دن اپنے وفد کے ہمراہ تاشقند پہنچ گئے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین یہ تاریخی مذاکرات سات دن تک جاری رہے۔ لیکن ان سات دنوں میں مذاکرات کی فضا مسلسل تبدیل ہوتی رہی۔ بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر کرنے سے صاف انکار کر رہے تھے۔ وزیراعظم شاستری کا موقف یہ تھا کہ کشمیر کا مسئلہ پہلے سے طے شدہ ہے اور موجودہ مذاکرات صرف ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ہو رہے ہیں جو موجودہ پاک بھارت جنگ کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی وفد مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کئے بغیر آگے بڑھنے کو تیار نہیں تھا۔ پاکستانی وفد کا موقف تھا کہ کشمیر کا ذکر کئے بغیر یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور اگر کشمیر کا ذکر ان میں شامل نہیں کیا جاتا تو پاکستانی وفد کو چاہئیے کہ کوئی بھی معاہدہ کئے بغیر وطن واپس لوٹ جائیں۔

قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’شہاب نامہ‘ میں لکھا ہے کہ ’غالباً روسیوں کی مداخلت سے شاستری جی کسی قدر پسیجے اور پاکستانی وفد کو ان مذاکرات کے دوران کشمیر کا نام لینے کی اجازت مل گئی، البتہ بھارتی وزیراعظم کا رویہ بدستور سخت اور بے لوچ رہا۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ طے ہو چکا تھا اور اب اسے ازسرنو چھیڑنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ مسٹر بھٹو کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو بغیر کوئی معاہدہ کئے واپس لوٹ جانا چاہیئے۔ شروع میں صدر ایوب بھی غالباً اس خیال سے متفق تھے لیکن روسی وزیراعظم مسٹر کوسیگن نے صدر ایوب خان سے پے در پے چند ملاقاتیں کر کے ان پر کچھ ایسا جادو کیا کہ ان کا رویہ ڈرامائی طور پر بدل گیا اور وہ دفعتاً اس بات کے حامی ہو گئے کہ کسی معاہدے پر دستخط کئے بغیر ہمیں تاشقند سے واپس جانا زیب نہیں دیتا۔‘

روسی وزیراعظم کی کوششوں کے بعد بالآخر 10 جنوری 1966 کو صدر ایوب خان اور وزیراعظم شاستری نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کر دیے۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ پاکستان اور بھارت کی مسلح افواج اگلے ڈیڑھ ماہ میں 5 اگست 1965 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے منشور پر پابند رہتے ہوئے باہمی مذاکرات کی بنیاد پر حل کریں گے۔ معاہدے کے نتیجے کے طور پر بھارت کو قبضے میں لیے گئے پاکستان کے دو گاوں حاجی پیر اور ٹیتھوال پاکستان کو واپس کرنے پڑے۔ بھارتی مقتدر حلقوں اور میڈیا میں اس معاہدے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بعض حلقوں کا یہ خیال ہے کہ اسی تنقید کے دباو نے بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کی جان لے لی۔ معاہدہ ہونے کے بعد رات دس بجے روس کی جانب سے دی جانے والی ضیافت سے فارغ ہو کر لال بہادر شاستری اپنے کمرے میں چلے گئے۔ رات کے ایک بجے کے بعد انہیں دل کا دورہ پڑا۔ ان کے ڈاکٹر بروقت ان تک نہ پہنچے اور رات 2 بجے لال بہادر شاستری انتقال کر گئے۔ جنرل ایوب خان ان کے مرنے پر گہرے رنجیدہ نظر آئے کیونکہ وہ وزیراعظم شاستری کو بھارت اور پاکستان کے مابین امن قائم کرنے کی امید تصور کر رہے تھے۔ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی رات کو جگایا گیا اور سیکرٹری دفاع نے انہیں خبر دی کہ 'حرام زادہ مر گیا ہے!' بھٹو نے یکلخت سوال کیا، 'کون سا؟' وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی وفات تقریباً 56 سال گزرنے کے بعد آج تک ایک معما ہی ہے اور اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی رہی ہیں۔

دوسری جانب پاکستان میں بھی اس معاہدے کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ صحافتی اور مقتدر حلقوں نے اس قسم کے تبصرے کئے کہ پاکستان میدان جنگ میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار گیا۔ اس کے علاوہ معاہدہ تاشقند پر دوسرا سب سے بڑا اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ صدر ایوب خان نے یہ معاہدہ کر کے کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔ تبصروں میں اس بات کی گونج بھی سنی گئی کہ یہی وہ بہترین وقت تھا جب مسئلہ کشمیر کو حل کیا جا سکتا تھا۔ یہ وقت گنوا کے صدر ایوب خان نے پاکستان کو پہلے سے بھی زیادہ مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔

تاشقند معاہدے نے پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کا خاتمہ تو کروا دیا مگر اس نے کئی نئے سوال اور مسائل کھڑے کر دیے۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا اور برصغیر میں نمایاں اثر و رسوخ امریکہ ہی کا تھا۔ تاشقند مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرکے سوویت یونین کو برصغیر کے معاملات میں عمل دخل کرنے کا راستہ مل گیا۔ اس بریک تھرو کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کے مابین جاری سرد جنگ کا ایک میدان برصغیر بھی بن گیا۔

پاکستان کی سیاست کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس معاہدے نے جنرل ایوب خان کو اقتدار سے الگ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ صدر پاکستان جنرل ایوب خان اور ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے مابین بدگمانیاں تو معاہدے سے پہلے بھی موجود تھیں مگر معاہدے نے ان بدگمانیوں کو اور بڑھا دیا۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’مذاکرات کے دوران کسی نکتے پر مسٹر بھٹو نے صدر ایوب کو کچھ مشورہ دینے کی کوشش کی تو صدر کا ناریل اچانک چٹخ گیا۔ انہوں نے غصے میں مسٹر بھٹو کو اردو میں ڈانٹ کر کہا: ’اُلو کے پٹھے بکواس بند کرو۔‘ مسٹر بھٹو نے دبے لفظوں میں احتجاج کیا: ’سر آپ یہ ہرگز فراموش نہ کریں کہ روسی وفد میں کوئی نہ کوئی اردو زبان جاننے والا بھی ضرور موجود ہو گا۔‘ شہاب صاحب لکھتے ہیں کہ ’غالباً یہی وہ نکتہ آغاز ہے جہاں سے صدر ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو کے راستے عملی طور پر الگ الگ ہو گئے۔‘

عقیل عباس جعفری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو صدر پاکستان ایوب خان کے ساتھ ڈبل گیم کر رہے تھے۔ معاہدہ تاشقند طے پانے کے بعد بھٹو دبے دبے الفاظ میں یہ تاثر دینے لگے تھے کہ پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط کر کے کمشیر کو ہمیشہ کے لیے بھارت کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ پاکستانی عوام اور اپوزیشن کے سیاست دانوں کا بھی یہی خیال تھا اور اسی وجہ سے 13 جنوری 1966 سے مغربی پاکستان میں معاہدہ تاشقند کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوگیا۔ یہ مظاہرے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی داخل ہو گئے۔ بھٹو اس مرحلے پر ایوب خان سے تعلقات بگاڑے بغیر اعلان تاشقند کے خلاف تحریک کی محتاط طریقے پر حمایت کرنا چاہتے تھے۔ ان کا منصوبہ واضح تھا۔ اگر انتظامیہ تحریک پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی تو وہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے مظاہرین کے ساتھ مل جائیں گے اور اگر تحریک کو دبا دیا گیا تو جب تک ممکن ہوا وہ کابینہ میں شامل رہیں گے۔

الطاف گوہر نے اپنی کتاب ’ایوب خان فوجی راج کے پہلے دس سال‘ میں لکھا ہے کہ ’بھٹو نے ایوب خان کو یہ تعجب انگیز مشورہ دیا کہ وہ معاہدۂ تاشقند سے لاتعلقی کا اعلان کر دیں۔ ایوب خان نے اس تجویز پر بھٹو کو سخت الفاظ میں ڈانٹ پلائی اور کہا کہ وہ اس طرح کی فضول باتوں سے باز رہیں۔‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’بھٹو کچھ دنوں کے لیے لاڑکانہ چلے گئے جہاں وہ معاہدہ تاشقند کے بارے میں طرح طرح کی داستان طرازیاں کرنے لگے۔ انہوں نے بعض غیر ملکی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایوب خان نے تاشقند میں صرف ایک ہی معاہدے پر دستخط نہیں کیے بلکہ وہاں اعلان تاشقند کے علاوہ ایک اور معاہدہ بھی ہوا تھا جسے خفیہ رکھا گیا تھا۔‘

الطاف گوہر کے بقول ’کیوں کہ یہ انکشاف خود وزیر خارجہ کررہے تھے لہٰذا صحافیوں کی اکثریت نے اسے درست تسلیم کر لیا۔ بھٹو جانتے تھے کہ ایوب حکومت میں ان کے دن گنے جا چکے ہیں، چنانچہ وہ اپنے آپ کو اعلان تاشقند سے بری الذمہ ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ بھٹو تاشقند میں ہونے والے مذاکرات میں پوری طرح شریک رہے تھے، ان کا یہ کہنا کہ ایوب خان نے اعلان تاشقند کے علاوہ کسی خفیہ معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے، قطعی طور پر جھوٹ تھا مگر بھٹو نے اس جھوٹ سے خوب فائدہ اٹھایا۔‘

معاہدہ تاشقند کے بعد عوام میں حکومت اور صدر پاکستان جنرل ایوب خان کی مقبولیت میں کمی آنے لگی جب کہ دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔ اس بدگمانی کے ماحول میں صدر ایوب خان نے کوشش کی کہ کسی طرح ذوالفقار علی بھٹو سے بات چیت کی جائے اور انہیں اسمبلی میں آ کر حکومت کے حق میں تقریر کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے جنرل ایوب خان نے مارچ 1966 میں لاڑکانہ کا سفر کیا اور بھٹو کے بقول انھوں نے بھٹو سے اسمبلی میں آ کر تقریر کرنے کے لئے منتیں کیں۔ بھٹو صدر ایوب کی بات مان گئے اور 16 مارچ 1966 کو انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر جب اپنی تقریر شروع کی تو وہ حکومت اور صدر ایوب خان کے بارے میں خاصے اکھڑے اکھڑے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان محض ایک جغرافیائی لحاظ سے کچھ صوبوں کا ملاپ ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ یہ امت مسلمہ کی عظمت کی تخلیق ہے۔ پاکستان ایک تاریخی انقلاب کا نام ہے۔ پاکستان کہیں زیادہ زندہ انقلاب ہے۔

سننے والے جانتے تھے کہ بھٹو صاحب کیا کہنا چاہ رہے تھے۔ سٹینلی وولپرٹ اپنی کتاب زلفی بھٹو آف پاکستان میں لکھتے ہیں کہ بھٹو نے بتا دیا تھا کہ ایوب خان کا 1958 کا انقلاب مر چکا۔

یہ طے تھا کہ صدر پاکستان اور وزیر خارجہ کے راستے الگ ہو گئے ہیں اور ایوب خان بہت جلد بھٹو کو کابینہ سے نکال دیں گے۔ کچھ مہینوں تک تو یہ افواہیں محض افواہیں ہی رہیں بلکہ اس دوران ایک مرتبہ صدر ایوب خان نے ان افواہوں کی تردید بھی کی مگر بالآخر17 جون 1966 کو صدر پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو سے وزارت خارجہ کا قلم دان واپس لے لیا۔ اس خبر نے پاکستان کی سیاسی فضا میں ہلچل مچا دی۔ بھٹو نے بھی اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور راولپنڈی سے بذریعہ ریل گاڑی کراچی کے لئے روانہ ہوئے۔ 22 جون 1966 کو وہ پہلے مرحلے میں لاہور پہنچے جہاں عوام نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ 23 جون کو وہ لاڑکانہ اور 24 جون کو کراچی پہنچے۔ ہر جگہ اور ہر مقام پر بھٹو کا والہانہ استقبال ہوا۔ اس پرجوش استقبال سے متاثر ہو کر ہی بھٹو نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہی فیصلہ آگے چل کر پاکستان پیپلز پارٹی کے وجود میں آنے کا باعث بنا۔

دوسری جانب معاہدہ تاشقند کی بنا پر پاکستانی عوام میں صدر ایوب خان کے خلاف غم و غصہ کی لہر پیدا ہوئی اور بالآخر ایوب خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ پاکستانی عوام کا آج تک یہی خیال ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو تاشقند کی سرزمین پر ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا اور وہ جنگ جو خود حکومتی دعووں کے مطابق میدان میں جیتی جا چکی تھی، معاہدے کی میز پر ہار دی گئی۔

مغربی پاکستان کی سیاست میں اس ہلچل کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی وجود میں آئی جبکہ 1965 کی جنگ میں جس طریقے سے مشرقی پاکستان کو نظرانداز کیا گیا اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی بے چینی میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ صرف اس وجہ سے نہیں کیا تھا کہ چین نے اسے سخت نتائج کی دھمکی دی تھی۔ ورنہ مغربی پاکستان تو اپنے بکھیڑوں میں اتنا الجھا ہوا تھا کہ اسے مشرقی پاکستان کی حفاظت کا ہوش ہی نہیں تھا۔ مغربی پاکستان میں جہاں پیپلز پارٹی ایک نئے مظہر کے طور پر سامنے آئی اسی طرح مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو مزید پذیرائی ملی اور جنگ کے بعد کے حالات کے پیش نظر ہی شیخ مجیب الرحمان نے اپنے تاریخی چھ نکات تحریر کئے۔ اس طرح 1965 کی جنگ اور جنوری 1966 کا تاشقند معاہدہ آگے چل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بھی باعث بنا۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں۔ وہ عالمی ادب، بین الاقوامی سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔