اگر ہم واقعی ملکی مسائل کے حل کے لئے مخلص ہیں تو پھر ہمیں پہلے قوم بننا ہو گا۔ قوم وہ ہوتی ہے جس کی سوچ ایک ہو۔ جب سوچ ایک تھی تو وسائل نہ ہونے کے باوجود، دنیا کی فاتح قوم سے نجات حاصل کر کے ایک آزاد ریاست حاصل کر لی اور اگر اب دوبارہ اپنی آزاد ریاست کو بیرونی قرضوں اور مداخلت سے آزاد کرا کے جینے کا حق حاصل کرنا ہے تو پھر دوبارہ سے ایک قوم بننا ہو گا۔
ہمیں بحیثیت قوم ایک ایسی سوچ پیدا کرنا ہو گی جس میں اپنے ذاتی مفادات کو قربان کر کے قومی مفادات کو ترجیح دینا ہو گی۔ ڈالرز کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنی کرنسی میں کاروبار کو ترجیح دینا ہو گی۔ دولت کو ملک سے باہر لے جانے کے بجائے واپس لانا ہو گا۔ اپنے وقت، دولت اور توانائیوں سے ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہو گا کیونکہ اُس وقت تک یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا جب تک یہ دھرتی بدعنوانی، سمگلنگ، لاقانونیت، حقوق کی خلاف ورزیوں، ناپ تول میں کمی اور ملاوٹ سے پاک نہیں ہو گی اور یہاں رہنے والوں کے دلوں میں دوسروں کی ہمدردی والی سوچ پیدا نہیں ہو گی۔ پاکستان کو اگر حقیقی پاکستان بنانا ہے تو پھر اس کے مطلب و مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے ماحول کو حقیقی بنانا ہو گا۔ پاکستان کا لفظی ترجمہ بھی پاک دھرتی بنتا ہے۔ پاکستان کا مطلب اگر لا الہ الا اللہ ہو اور اس کے اندر ہر وہ برائی جاری ہو جس کا اسلام سے دور دور کا بھی تعلق نہ ہو بلکہ اس کی ممانعت کی گئی ہو اورجسے اسلام اور کفر میں فرق بتایا گیا ہو تو پھر اس کی ترقی کے خواب کو کسی غافل کا خواب تو کہا جا سکتا ہے مگر باشعور انسان کا قطعاً بھی نہیں۔
یہ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لاقانونیت ہمارے ان اعمال کا نتیجہ ہے جو 75 سالوں سے قومی غلطیوں کی صورت ہم بار بار دہرا رہے ہیں۔ کیا رشوت کا لینا دینا، نیچے سے لے کر اوپر تک کمیشن کی لت اور ہر طرح کی بدعنوانی سے کوئی لا علم ہے اور کیا ان کے ہوتے ہوئے اسے پاکستان (پاک سرزمین) کہا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرنے ہوں گے جن سے ہم کم از کم یہ دعویٰ تو کر سکیں کہ ہمارے فعل ایک اچھے شہری کے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں چھپائے ہوئے ڈالرز کو مارکیٹ میں عام کرنا ہو گا۔ چھپائی ہوئی خوراک، چینی، آٹا، چاول اور دوسری اجناس کو مارکیٹ میں لانا ہو گا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔ دوسرے پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنی اصلاح کرنا ہو گی۔
ریاست محض جغرافیائی حدود کا نام نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر رہنے والے عوام اور نظام حکومت بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ عوام کی سوچ و عمل کا ریاست کے معاملات سے گہرا تعلق ہے۔ اس کا نظام حکومت عوام کے سوچ وعمل سے ہی مشروط ہوتا ہے۔ اس کی بہتری یا تباہی میں عوام کی سوچ و عمل کا ہی کردار ہوتا ہے۔ اس ملک کے حکمران ہم میں سے ہی ہوتے ہیں۔ ہم نے ہی ان کی خاندانوں اور معاشرے کے اندر تربیت کر کے ان عہدوں تک پہنچایا ہوتا ہے اور اگر ان کی صحیح تربیت کی گئی ہوتی تو آج یہ وقت دیکھنے کو نہ ملتا۔ عوام کے اندر جس دن اپنے ملک اس کی املاک اور اداروں کی اہمیت اور اس کی ملکیت کا احساس جاگ جائے گا اس دن سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ عوام کو جس دن اچھے اور برے میں تمیز آ جائے گی اپنے ملک کے آئین و قانون کی پاسداری کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے گا اس دن سے ہماری سمت درست ہو جائے گی اور ہماری ترقی کے سفر کا آغاز ہو گا۔
اس کے لئے ہمیں اپنے سوچ و عمل سے قوم بننا ہو گا اور اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرنے کا عملی ثبوت دینا ہو گا۔ اپنے ملک کو اپنا گھر سمجھنا ہو گا اور جس دن ہم یہ سمجھ لیں گے تو پھر ہمیں اس کو لوٹنے کی بجائے اس کو بنانے کی فکر لاحق ہو گی اور پھر ہم اپنے گھر کو لوٹ کر غیروں کے دیس نہیں بھاگیں گے بلکہ ان بھاگنے والوں کا بھی محاسبہ کریں گے۔ بدعنوانی کا حصہ بننے کی بجائے اس کے خلاف ڈھال بنیں گے۔ اس کے وسائل کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے کی بجائے قومی مفادات کے لئے استعمال کریں گے۔ پھر ہم عوام کو اس کی حفاظت کرنا بھی آتی ہو گی اور اپنی خدمت پر مامور ان لوگوں جن کی تنخواہیں خزانے سے جاتی ہیں، سے کام لینا بھی آتا ہو گا اور اس دن سیاست شوق نہیں رہے گا بلکہ مجبوری بن جائے گا۔ لوگ سیاست سے بھاگیں گے اور عوام خود اچھے لوگوں کو ڈھونڈ کر مجبور کر کے مسند اقتدار پر بٹھائیں گے۔
قوم بننے کا مطلب ہے کہ ہر کوئی اپنی سوچ و عمل کو ملک و قوم کے مفادات سے ہم آہنگ کر کے اپنی اپنی استعداد اور اختیار کے مطابق اپنا حصہ ڈالے۔ مذہبی منافرت، عہدوں اور اختیارات کی مسابقت، قول و فعل کی منافقت اور خود غرضی کی معاشرت کو چھوڑنا ہو گا اور ہر کسی کو اس کے نظریات اور آزادی کے ساتھ آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہ کر زندگی گزارنے کا حق دینا ہو گا۔ مذہب کے تقدس کے نام پر قتل و غارت کو ختم کرنا ہو گا اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانا ہو گا۔ جبری گمشدگیوں، حق آزادی رائے کی آواز کو دبانے جیسے خوف سے پیدا ہونے والے اپنے ہی دیش میں اجنبیت کے تاثر کو ختم کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے گرد مذہب، قومیت، علاقائیت، زبان اور دوسرے تعصبات کے حصار ختم کر کے محض پاکستانی ہونے کی شناخت پر اتفاق کرتے ہوئے سب کو مل جل کر اس ملک کی تقدیر کو سنوارنے کے لئے شانہ بشانہ آگے بڑھنا ہو گا۔
قوم کو اچھے برے میں تمیز کرتے ہوئے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی جو ملک و قوم کے لئے مخلص ہیں اور جن کا ماضی اس اخلاص سے مطابقت رکھتا ہے۔ ہر اس عنصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی جن کا قول و فعل ملک و قوم سے اخلاص کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا خواہ اس کا کسی بھی ادارے سے یا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو۔ سیاست دانوں کے نعروں کو ان کے قول و فعل کے ساتھ مطابقت کے ساتھ دیکھنا ہو گا۔ اور اگر کوئی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لاتا یا بدعنوانی کو ختم کرنے میں ساتھ نہیں دیتا تو وہ اس ملک و قوم کے لئے مخلص نہیں ہو سکتا۔
ہمارے پاس اس کی کسوٹی آئین و قانون ہی ہے۔ اگر تو ہم اس کسوٹی پر پورے اترتے ہوں تو پھر ہم اس ملک کے لئے مخلص ہیں اور اگر ہم اس کسوٹی پر پورے نہیں اترتے تو پھر ہمارے کھوکھلے نعرے اس ملک کو کچھ نہیں دے سکتے جیسا کہ ہماری تاریخ اس کی گواہ ہے۔