سنگین غداری، آئین پسندی اور قانون کی حکمرانی: جمود اور ضد کا حاصل مزید انتشار ہو گا

کسی بھی ریاست میں ہم آہنگی کی ضمانت آئین پسندی اور قانون کی حکمرانی ہے۔ اداروں میں فاصلے، معاشرتی تناؤ اور افراد کی بیگانگی جیسے رحجانات اس وقت دیکھنے کو ملتے ہیں جب آئین اور قانون پر عملداری کمزور ہوتی ہے۔ یہ رحجانات معاشرے و ریاست میں ہم آہنگی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں بنتے ہیں۔ جب سب کو انصاف کے ایک ترازو میں تولا نہیں جاتا تو پھر معاشرے انتشار اور خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں بھی چونکہ میزان سب کے لئے برابر نہیں رہا، اور اس کی ناانصافی کا نشانہ عوام کے نمائندے اور وزیراعظم بنے، جبکہ باقی ادارے جن کی نمائندہ حیثیت بھی نہیں تھی، اُن کی طاقت کے سامنے انصاف بے بسی کی تصویر بنا رہا۔ یہ پاکستان کا المیہ رہا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں آئین کی حیثیت مقدس دستاویز کی ہے جس میں سب افراد کو اداروں کو آئینی قانونی حدود و قیود کے تابع اس طرح بااختیار بنایا گیا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر نہ ہو، لہذا نہ کوئی فرد ناگزیر دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی قانون سے بالاتر۔

فرانس کے صدر چارلس ڈیگال کا یہ تاریخی جملہ ’ناگزیر شخصیات سے قبرستان بھرے پڑے ہیں‘ اس بات کی گواہی ہے کہ جمہوریت اور جدید دنیا میں کوئی فرد ناگزیر نہیں۔ عوام کے پاس ہی حق حکمرانی ہے، اور وہ بطور امانت یہ حق منتخب نمائندوں کو دیتے اور پھر واپس لے لیتے ہیں۔ یہ حکومت اور عوام کا رشتہ ہے۔

جب عوام کا ریاست اور حکومت سے رشتہ کمزور پڑتا ہے، تو بیگانگی کے جذبات مضبوط ہونے لگتے ہیں۔ آج عوام سے حکمرانی کا حق چھین کر سلیکٹڈ حکومت کو دے دیا گیا ہے۔ اُن کے ووٹ سے فراڈ ہوا ہے۔

شہری اور سیاسی حقوق اہم ہوتے ہیں۔ ووٹ کی طاقت سے ہی فرد شہری بنتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی انجیئنرنگ اور پروپیگنڈا مشینری کی مدد سے عوام کو گمراہی کی دلدل میں دھکیل کر اور انتخابی دھاندلی سے مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کئے گئے ہیں۔ کبھی آئی جے آئی بنائی گئی اور کبھی تبدیلی کی سونامی سے پاکستان کے سیاست و معاشرت کو تباہ کیا گیا۔

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 6 بڑا واضح ہے، اس کے تحت آئین کو توڑنے کو ریاست سے ’سنگین بغاوت‘ کا جرم قرار دیا گیا ہے، اس کی سزا پارلیمنٹ نے عمر قید یا موت تجویز کی ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل کی 3 ضمنی دفعات ہیں:

1۔ کوئی شخص جو طاقت کے استعمال سے یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرے یا تنسیخ کرنے کی سعی یا سازش کرے، تخریب کرے یا تخریب کرنے کی سعی یا سازش کرے سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔

2۔ کوئی شخص جو شق ایک میں مذکورہ افعال میں مدد دے گا یا معاونت کرے گا، اسی طرح سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔

3۔ مجلس شوریٰ پارلیمنٹ بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لئے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔

لہذا جو کوئی طاقت کے استعمال سے یا دیگر غیر آئینی ذرائع کو استعمال میں لاتا ہے اور آئین کو تنسیخ کر کے خود طاقت کے بل بوتے پر حکمران بنتا ہے۔ اُس کو آئین غدار کہتا ہے۔ اور اس کے لئے سزا پارلیمنٹ نے عمر قید یا موت تجویز کی ہے۔ سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کا فیصلہ نہ صرف تاریخی ہے بلکہ اُن کے لئے پیغام بھی ہے جو آئین کو محض کاغذ کا ٹکڑا اور خود کو قانون سے بالاتر تصور کرتے ہیں۔

آئین کی تنسیخی ہو یا منظم سازش کے ذریعے سلیکٹڈ حکومت کی سلیکشن، یہ کسی بھی فرد کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے، جس کے لئے وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے غیرآئینی جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ کسی ادارے کا نہیں بلکہ ایک فرد کا ذاتی عمل ہوتا ہے۔ جو اپنے ذاتی مفادات اور سیاسی عزائم کے لئے ادارے کو استعمال کرتا ہے۔ لہذا افراد اور ادارے کے فرق کو ملحوظِ خاطر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔

فرد کو ادارے کے طور پر اور آئین و قانون سے بالاتر پیش کرنے کا فوری ردعمل کچھ یوں آیا ہے کہ خیبرپختونخوا بار کونسل نے سابق جنرل (ر)پرویز مشرف کو سزائے موت کے فیصلے پر ڈی جی آئی ایس پی آر اور وفاقی حکومت کے رویہ اور عدالتی فیصلے پر تنقید کی مذمت کرتے ہوئے آج صوبہ بھر میں عدالتوں کے احترام میں بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

اس ضمن میں بار کونسل کی جانب سے جاری بیان میں بار کونسل کے وائس چیئرمین سعید خان اور حق نواز خان ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف نے آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی اور غداری کے مرتکب ہوئے جس پر سپیشل کورٹ نے فیصلہ سنایا۔ تاہم عدالتی فیصلے پر پاک فوج کے ترجمان کے تاثرات آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے جو سپریم جوڈیشری کے توہین کے زمرے میں آتا ہے۔

اگر آئی ایس پی آر کی نظر میں مشرف کیس سے متعلق فیصلے میں خامیاں ہیں تو اسکے لیے اپیل وغیرہ کا طریقہ کار موجود ہے اور اس کے خلاف متعلقہ فورم سے رجوع کیا جاسکتا ہے لیکن جس طرح عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ملک میں تمام ادارے کسی ایک ادارے کے تابع ہیں اور دیگر اداروں عدلیہ، پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں کا کوئی احترام نہیں۔

حتیٰ کہ نجی ٹی وی میں ایک پروگرام کے دوران وزیراعظم عمران خان کے ترجمان ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ملک میں وزیراعظم کو پھانسی چڑھتے دیکھا، وزیراعظموں کو نااہل ہوتے دیکھا، بے نظیر کو شہید ہوتے دیکھا اور اے پی ایس جیسا سانحہ بھی دیکھا لیکن معاشرہ آگے بڑھتا رہا اور لوگوں نے برداشت کیا۔ ہم نے قانون کی حکمرانی کا مشکل سفر شروع کیا ہے تو اس فیصلے پر بھی معاشرے کو اتنا سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں، آگے بڑھیں آگے سپریم کورٹ کھڑی ہے۔ یہ ملک چند افراد کا نہیں، یہ سب کا ملک ہے اور سب کو مثالی بننا پڑے گا لیکن جب عدالتیں کسی کے خلاف فیصلہ کریں اس کو قبول کریں، ڈنڈا لے کر فیصلوں کےخلاف کھڑا ہونے سے معاشرہ نہیں چل سکتا۔

پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کی سزائے موت کے فیصلہ کو تاریخی قرار دیا ہے۔ پیپلزپارٹی پارلیمینٹرینز کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے فیصلوں سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوتا ہے۔

پرویز مشرف سنگین غداری کیس سمیت شہید بے نظیر بھٹو کے قتل، بارہ مئی کو کراچی میں قتل عام سمیت اکبر بگٹی کے قتل میں بھی مطلوب ہیں۔ عدالتوں کو ان مقدمات میں بھی ان کا ٹرائل کرنا چاہیے۔

پاکستان کی نئی سمت وہ ہوگی، جس میں آئین پسندی، قانون کی حکمران، جمہوری اصولوں کی پاسداری، بنیادی انسانی حقوق کا احترام جیسے تصورات کو مشعل راہ بنایا جائے گا۔ جس میں افراد سے ذیادہ ادارے اہم ہوں گئے، اور دونوں کے کردار کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر اس طرح پیش نہیں کیا جائے گا کہ ایک فرد کا جرم ادارے کا جرم سمجھا جائے۔ افراد آتے ہیں، چلے جاتے ہیں، اداروں نے قائم رہنا ہوتا ہے، بلکہ آئین و قانون کے تابع آگے بڑھنا ہوتا ہے، پاکستان نے بھی آگے بڑھنا ہے، اور اداروں کی مدد سے اُن کے کردار سےآگے بڑھنا ہوتا ہے۔ جس کے لئے نئی روایات کو جنم دینا ہو گا۔ جو جدید سیاسی، آئینی رحجانات ہیں ان کو اپنانا ہو گا۔ جمود اور ضد کا حاصل مزید انتشار ہو گا۔