برقی آلات بچوں کی پہنچ سے دور رکھئیے، کہیں دیر نا ہو جائے !

برقی آلات بچوں کی پہنچ سے دور رکھئیے، کہیں دیر نا ہو جائے !
گلی ڈنڈا اٹھا کر گرمیوں کی تپتی دوپہر میں گھر سے نکلنا اور کمال یہ کہ والدین کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ گڈیاں لوٹنا، لَٹو گھمانا وقت گزارنے کا بہترین ذریعہ ہوتے تھے۔ وقت کچھ اس تیزی سے تبدیل ہوا ہے کہ 80 کی دھائی میں پیدا ہونے والے تو تقریبا "پرانے زمانے" والے ہوچکے ہیں۔

الفاظ اور فقروں کی تکرار سے مقصد تحریر فوت نہ ہو سو مدعے پر آتے ہیں، اب ہر نوجوان کے ہاتھ میں کم از کم ایک اور کچھ کے ہاتھوں میں دو، دو دمکتی اسکرینیں ہیں۔ یہ موبائل فون ہے۔ تاروں کے گچھے کے جنجھٹ کے بغیر کسی بھی جگہ ایک دوسرے سے رابطے کیلئے موثر سمجھے جانے والے اس "گیڈجیٹ" نے ہماری دنیا ہی تبدیل کردی ہے۔ یہی آج کے نوجوان کی کتاب ہے اور یہی لائیبریری، یہی محلے کے دوسری جانب بہتی نہر بھی ہے اور آج کے کرکٹ گراونڈ بھی۔ نوجوان دنیا و مافیھا سے بے خبر اسی میں گم ہیں۔آج کا نوجوان سڑک کنارے محبوبہ کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے گھنٹوں خوار نہیں ہوتا۔ محبوب کی جھلک، اداوں سمیت ایک ویڈیو کال کی دوری پر ہے۔

بات مگر صرف نوجوانوں تک ہی محدود نہیں ہے، حیرت تو تب ہوتی ہے جب ڈائپر پہنتے بچے سمارٹ فونز اور ٹیبلٹس پر انگلیاں چلاتے نظر آتے ہیں۔ عالم تو یہ ہے کہ آج کے پڑھے لکھے اور "سمجھدار" والدین کو کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ گیڈجٹس کے نقصانات سے واقف ماں باپ جب انہیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو بچہ رونے لگتا ہے، بلیک میلنگ کے اس تاریخی ہتھیار کے سامنے سخت سے سخت ماں کا دل بھی پسیج جاتا ہے۔ نتیجتاً بچے کا مشن کامیاب ہوتا ہے اور ماں بھی شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے گھر کے کاموں میں مشغول ہو جاتی ہے۔ اس ماں کو کون سمجھائے کہ رونے دھونے سے یہ وقتی فرار دراصل بچے کی زہنی اور جسمانی نشوونما پر کس قدر اثر انداز ہوتا ہے۔ موبائل فون سے نکلتی شعاؤں سے آنکھیں تو متاثر ہوتی ہی ہیں، بچوں کے ذہن بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔اپنے ارد گرد نظر اٹھا کر دیکھیں تو معلوم پڑتا ہے لاشعوری طور پر سہی مگر والدین خود اپنے بچوں کی تباہی کا سامان کرتے نظر آتے ہیں ۔

کم بخت ہیں یہ سمارٹ فونز اور ٹیبلٹس، فاصلے ختم کرنے کی بجائے سب کو دور کر چھوڑا ہے۔ لوگ ایک ساتھ ہو کر بھی اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ بات کرنے کو کچھ ہے نہیں البتہ جذبات کا اظہار اب باتوں کی جگہ اترنگی قسم کی اموجیز سے ہوتا ہے۔ جی ہاں ! دکھی ہونے کی اموجیز، خوشی کی اموجیز، حتی کہ جو جذبات ابھی پنپنے کی سطح پر بھی نہیں پہنچے ہوتے انکے لیے بھی آپشنز دستیاب ہیں۔

حال ہی میں اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ بھی سماعت فرما لیں۔

گھر پر مہمانوں کا رش تھا، والدہ کہنے لگیں بھانجے کو اپنے کمرے میں سلا دو، رات بارہ بجے کے قریب سونے کی تیاری کر رہا تھا تو کیا دیکھتا ہوں بھانجا موصوف موبائل فون پر انہماک کیساتھ کچھ دیکھ کر قہقہے لگا رہے ہیں ۔ خیر جلدی سونے کا کہہ کر خود خواب خرگوش کے مزے لینے لگا۔ صبح آٹھ بجے موبائل فون پر الارم کی آواز سے آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں، جناب کمرے میں نہیں ہیں، حیرت بھی ہوئی کہ اتنی جلدی کیسے جاگ گیا ۔خیر نہا دھو کر کمرے سے باہر نکلا تو کانوں سے آواز ٹکرائی "گڈ مارننگ ماموں" ٹی وی لاونج میں صوفے پر موصوف بیٹھے حسبِ عادت موبائل فون پر شاید ویڈیو گیم کھیل رہے تھے۔ میں نے پوچھا طحہ اتنی جلدی کیسے اٹھ گئے؟ اس سے پہلے کہ جواب آتا، کچن میں کھڑی بڑی بہن غصے سے بولی یہ صاحب رات بھر سوئے ہی نہیں ۔ بہن کی بات سن کر تو جیسے میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ حیرت تو تب ہوئی جب بھانجے کو اس سب کے باوجود دنیا و مافیھا سے بے خبر موبائل فون میں گم پایا۔

پاکستان میں تو نہیں البتہ عالمی سطح پر اس موضوع پر متعدد اسڈیز کرائی جا چکی ہیں ۔ جن کیمطابق بچوں میں غصے کا عنصر ، آنکھیں خراب ہونا، مزاج میں چڑچڑاپن اور عدم توجہی کے بڑھتے روجھان کا موجب یہ برقی آلات ہی ہیں۔ ہمیں بچپن میں ٹی وی دیکھنے کیلئے صرف ایک گھنٹہ اجازت ملا کرتی تھی۔ اس ایک گھنٹے کے دوران بھی کم از کم تین بار کہا جاتا تھا پیچھے ہٹ کر بیٹھو ورنہ نظر کمزور ہو جائیگی۔ آج ایک محتاط اندازے کے مطابق بچے دن میں پانچ سے سات گھنٹے ان چمکتی دمکتی اسکرینوں کو ہاتھوں میں اٹھائے نجانے کیا کیا دیکھتے رہتے ہیں۔ مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔

بچوں بالخصوص کم سن بچوں میں سمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کے بڑھتے روجھان کو کم کرنے کیلیے والدین کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے دو سال سے کم عمر کے بچوں میں موبائل اور ٹیبلٹس کے بڑھتے استعمال کو نقصان دہ قرار دیتے ہوئے انہیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ والدین کو چاہیے دو سال سے زائد عمر کے بچوں کو اپنی نگرانی میں زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے تک گیڈجٹس استعمال کرنے دیں۔ برقی آلات کے اس جدید دور میں جنم لینے والے بچوں کیلیے گیڈجٹس کا استعمال ایک فطری عمل ہے۔ والدین پر منحصر ہے کہ وہ کیسے اپنے بچوں کو ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال سکھاتے ہیں۔ کیونکہ زرا سی غفلت ہوئی تو یاد رکھیں آج دنیا بھر کی معلومات ایک کلک کی دوری پر ہیں ۔ لہذا معصوم بچوں کو تعلیم کیساتھ ساتھ اچھی تربیت دینا بھی والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے والدین اپنے بچوں سے دوستی کا تعلق استوار کریں اور انکو جسمانی کھیلوں کیجانب راغب کریں تاکہ انکی جسمانی اور زہنی نشوونما ہو سکے۔ امریکن اکادمی آف پیڈیاٹرکس کے مطابق 12 سال سے زائد بچوں کو اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کا مثبت اور محفوظ طریقہِ استعمال بتانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اچھے اور برے کی تمیز نا ہونے پر بچہ کوئی بھی راستہ چُن سکتا ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ برقی آلات کے بے دریغ استعمال کو ناصرف کم کیا جائے بلکہ بچوں کو جدید ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی پہلووں سے بھی آگاہ رکھا جائے، ورنہ دیر ہو جائیگی۔

احمد عدیل سرفراز ایک صحافی ہیں جو آج نیوز کے ساتھ بطور سپریم کورٹ رپورٹر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔