وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہےکہ 90 دن میں تو پنجاب کے الیکشن نہیں ہو سکتے اور یہ بات اب پتھر پر لکیر ہے۔ جب سپریم کورٹ کا کوئی حکم ہی موجود ہی نہیں تو پھر کس فیصلے کی تائید اور پیروی کی جائے۔
نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا قومی سلامتی کمیٹی میں تین رکنی بینچ کے حکم پر بھی غور ہوا؟ اس پر انہوں نے کوئی واضح جواب دینے سے گریز کیا تاہم وزیر داخلہ نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کا کوئی حکم ہی موجود ہی نہیں تو پھر کس فیصلے کی تائید اور پیروی کی جائے۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کو بھی پنجاب میں الیکشن کرانے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ عدالت کے اقلیتی فیصلے پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کے لیے فوج دستیاب نہ ہو تو پنجاب پولیس میں اتنی صلاحیت نہیں کہ الیکشن کرا سکے۔ یہ بات اب پتھر پر لکیر ہے کہ 90 دن میں تو پنجاب کے الیکشن نہیں ہو سکتے۔
دوسری جانب پنجاب پولیس کی جانب سے عدالتی احکامات پر سیکیورٹی کے انتظامات جاری ہی تاہم پولیس حکام کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فارمولے کے تحت سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکیں گے۔
رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے 53 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز میں 30 فیصد پولنگ اسٹیشنز حساس قرار دئیے ہیں۔حساس پولنگ اسٹیشنز پر 11 اور کم حساس پر 8 جوانوں کی ڈیمانڈ کی گئی ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فارمولے کے تحت 4 لاکھ کے قریب نفری بنتی ہے۔ اس فارمولے کے تحت سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکیں گے۔
پنجاب پولیس نے مزید کہا ہے کہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں ایک لاکھ کے قریب سیکیورٹی اہلکار فراہم کرسکتے ہیں۔ 35 ہزار سے زائد جوان لاہور پولیس میں الیکشن کیلئے ڈیوٹیاں دیں گے۔ 50 ہزار ملازمین ریلیوں، جلسے جلوسوں کیلئے سیکیورٹی ڈیوٹیوں پر تعینات کئے جائیں گے۔
پولیس حکام نے بتایا کہ دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر 7 ہزار اہلکار حساس تنصیبات پر تعینات ہوں گے۔ 10 اپریل تک پولیس موجودہ وسائل میں سیکیورٹی پلان فراہم کردے گی۔
واضح رہے کہ 4 اپریل کو سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے 5 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ دیا۔
فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن شیڈول بحال کردیا جس میں چند تبدیلیاں کی جائیں گی۔
عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا 8 اکتوبر کو انتخابات کرانےکا حکم غیر آئینی قرار دے دیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی تھا۔آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا۔
سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے آگے نہیں جاسکتا۔ الیکشن کمیشن کے غیر قانونی فیصلے سے 13 دن ضائع ہوئے۔
سپریم کورٹ نے الیکشن پروگرام 13 دن آگے کرنے اور الیکشن کمیشن کو الیکشن ٹریبونلز سے دوبارہ کارروائی شروع کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پنجاب میں اب الیکشن 30 اپریل کے بجائے 14 مئی کو ہوں گے۔ الیکشن شیڈول پر جتنا عمل ہوچکا وہ برقرار رہے گا۔ کاغذات نامزدگی کیخلاف اپیلیں 10 اپریل تک دائر ہوں گی۔
سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلے میں نگران حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کی معاونت نہیں کی جاتی تو الیکشن کمیشن ہمیں آگاہ کرے۔