اُدھار کی ریاست تاریخ درست کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی

اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو ہمیں ان تاریخی حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہو گا، ماضی کے جھوٹ اور فریب کو قبول کر کے لوگوں کو حقیقت سے روشناس کروانا ہو گا، صرف اسی صورت میں ہم ترقی اور خوشحالی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے کے قابل ہو پائیں گے۔

اُدھار کی ریاست تاریخ درست کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی

دنیا بھر کا اصول ہے کہ ریاست لوگوں کے لیے ہوتی ہے نا کہ لوگ ریاست کے لیے، لیکن پاکستان ایسے ہائبرڈ نظام کی واحد مثال ہے جہاں عوام ریاست کے لیے ہیں۔ آپ ریاست اور اس کے مفاد کا راگ الاپ کر کسی کے بھی خلاف کسی بھی طرح کا ایکشن ترتیب دے سکتے ہیں۔ میرے ذہن میں یہ بات اگرچہ بہت پہلے سے نقش ہو چکی ہے مگر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی حالیہ گفتگو سن کر یہ ایک مرتبہ پھر تازہ ہو گئی ہے۔ ہمارے وزیر قانون ایک ٹی وی پروگرام میں فرما رہے تھے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت سے متعلق جو خط لکھا ہے اس کی تحقیقات تو ہو رہی ہیں مگر چونکہ ہمارا خطہ اور اس کے زمینی حقائق ایسے ہیں کہ بعض اوقات واقعی قومی سلامتی کا معاملہ پیدا ہو جاتا ہے اور ایجنسیوں کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ وزیر موصوف بادی النظر میں عدالتی نظام میں ایجنسیوں کی مداخلت کو قومی سلامتی کا چوغہ پہنا کر لیگل قرار دے رہے تھے۔

میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا ہوں کہ عمارت کی بنیاد ہی اگر غلط ہو تو پھر چاہے جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی کا جتنا بھی سیمنٹ بجری پوت کر اسے پروان چڑھایا جائے وہ کبھی مضبوط نہیں ہو سکتی۔ یہ تب تک مضبوط نہیں ہو سکتی جب تک آپ بنیاد سمیت اس کے سیمنٹ بجری کو تبدیل نہیں کریں گے۔ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں روایات سے لے کر عقائد تک اور سوچ سے لے کر پالیسی تک ہر چیز ادھار کی ہے۔ پاکستان نامی ریاست کا بچہ بچہ ادھار کی زندگی گزار رہا ہے، یہاں تک کہ ریاست بھی ادھار کی زندگی گزار رہی ہے۔ یہ معاملہ ماضی قریب میں نہیں شروع ہوا، قیام پاکستان بلکہ اس سے بھی قبل شروع ہو گیا تھا۔

ہمارے تو بانی محمد علی جناح کو 'قائد اعظم' کا جو خطاب دیا گیا جسے ہم بڑے زور شور سے پکارتے ہیں، وہ بھی ہمارے نام نہاد سب سے بڑے دشمن ملک بھارت کے بانی موہن داس کرم چند گاندھی کا دیا ہوا ہے۔ مذہب ہم نے عربوں سے ادھار لیا، مگر کلچر اس میں متحدہ ہندوستان کا ملا کر ادھاری کا ایک نیا مذہب بنا لیا جو نا پوری طرح دین اسلام کو فالو کرتا ہے، نا ہماری جد کے 5 ہزار سال پرانے کلچر اور روایات کو۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جس سندھ کو برصغیر میں اسلام کا پہلا قلعہ قرار دیا جاتا ہے اس سندھ کا نام بھی ہندوؤں سے ادھار لیا ہوا ہے۔ سندھ، سندھو، ہندو بنیادی طور پر کسی مذہب کے ماننے والے نہیں بلکہ اس جگہ کے رہنے والے کہلائے جاتے تھے مگر چونکہ ہم نے اپنا مذہبی چورن بیچنے کا دھندا چلانا تھا اس لیے ہم نے محمد بن قاسم نامی ایک ڈکیت اور قاتل کو اپنا مذہبی ہیرو بنا لیا۔ جبکہ اپنی سرزمین پر پائے جانے والے راجہ داہر، بھگت سنگھ، رائے احمد خان کھرل سمیت کئی حقیقی اور زمینی ہیروز کو نظرانداز کر دیا کیونکہ ہمیں ہیروز بھی ادھار کے بنانے تھے۔ پھر چاہے وہ افغانستان سے لوٹنے کے لیے برصغیر آنے والے ابدالی ہوں، غزنوی، یا پھر مغل ہوں۔

ہمارے ہاں تو فوجی میزائلوں کے نام بھی انہی ادھار کے ہیروز کے نام پر رکھے گئے جن میں ابدالی میزائل اور غوری میزائل قابل ذکر ہیں۔ اسے تاریخ کا ستم کہیں یا ہماری اپنا فکری تذبذب کہ اب ہم یہی میزائل اسی جگہ برسانے کی بڑھکیں مار رہے ہیں جہاں سے ابدالی آیا تھا۔

اس ملک کا قومی ترانہ بھی ایرانیوں کی فارسی زبان سے ادھار لیا گیا۔ جس زبان کو قومی بنایا، اسے قومی ترانے میں قومی جذبات کی ترجمانی کا بھی حق نہ دیا گیا۔ ہمارے فوجی جرنیل جنہیں ہم نے تاریخ میں بہت سجا سنوار کر پیش کیا وہ ایوب خان ٹائپ لوگ بھی انگریز کی برٹش انڈین آرمی کے چاپلوس اور وفادار افسر تھے جنہیں ادھار لے کر پاکستان میں لگا دیا گیا۔

جن چیزوں کو ہم ادھار نہ لے سکے ان میں اپنی مرضی کی تحریف کر کے انہیں اپنی جھوٹی تاریخ کا حصہ بنا لیا۔ پون صدی گزر گئی مگر ہم آج تک اس حقیقت کو بھی تسلیم نہیں کر سکے کہ اس ملک کے قیام کی اصل تاریخ کیا تھی۔ ہمیں رمضان کی ستائیسویں کو بھی اپنے قیام کا دن منانا ہے، جبکہ دوسری طرف ہمیں 14 اگست کو بھی آزادی کا دن منانا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 1947 میں ستائیسویں کی رات 15 اگست کو آئی تھی اور یہی اصل یوم آزادای پاکستان و ہندوستان ہے کیونکہ آخری وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی آخری پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'ہندوستان کو انتقالِ اقتدار 15 اگست 1947 کو کر دیا جائے گا'۔

اگر آپ نے آزادی کا دن 14 اگست ہی کو ماننا ہے تو پھر رمضان کی ستائیسویں والا مذہبی چورن بیچنا بند کر دیں۔ جب آپ کہتے ہیں کہ پاکستان نزولِ قرآن کی رات کو وجود میں آیا تھا تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھارت بھی اسی رات کو وجود میں آیا تھا۔ پھر قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان بنانا، اس میں سے آزاد ریاستوں کے لفظ کو آزاد ریاست میں بدلنا، اقبال کے 1930 کے خطبہ الہٰ آباد کو غلط رنگ دینا جبکہ 1933 میں اقبال خود واضح کر چکے تھے کہ وہ کسی آزاد پاکستان کی بات نہیں کر رہے، وہ ہندوستانی فیڈریشن کے اندر آزاد ریاستوں کی بات کر رہے ہیں جو مسلم اکثریت والی ہوں، سر سید احمد خان جو کبھی مسلم لیگ کے حامی تھے اور نا ہی پاکستان کے، ان کی تصاویر کو ہم اپنے ریاستی نوٹوں پر چھاپ کر ہیرو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب ہم نے خود کہیں نصاب میں پڑھا اور نا ہی اپنی نسلوں کو پڑھنے دیا۔ ہمارا نصاب بنیاد ہی نفرت سے ڈالتا ہے اور اسے آہستہ آہستہ ذہنوں میں زہر کی طرح گھول دیتا ہے۔

اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو ہمیں ان تاریخی حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہو گا، ماضی کے جھوٹ اور فریب کو قبول کر کے لوگوں کو حقیقت سے روشناس کروانا ہو گا، صرف اسی صورت میں ہم ترقی اور خوشحالی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے کے قابل ہو پائیں گے۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@