پاکستان میں آج کل سیاسی، عدالتی، پارلیمانی اور طاقتور جرنیلی اشرافیہ کی اعصابی جنگ اپنی زور آزمائی میں 'اقتداری بساط' کے مہرے چلانے میں سرگرم ہے جبکہ عوام کی معاشی بدحالی اور ہوش ربا مہنگائی سے نجات دلانے میں سیاسی دھرنے اور مارچ بھی کوئی ایسا حل دینے میں ناکام ہیں جو عوام کے جمہوری، انسانی حقوق یا معاشی بوجھ کا اثر کرنے میں موثر دکھائی دیں۔ ان سارے اسباب و علل کے لئے ہمیں پاکستان کی 'اقتداری حکمرانی' کے وہ داؤ پیچ ہرگز نظرانداز نہیں کرنے چاہئیں جن کے چنگل میں عوام کی جمہوری اور انسانی حقوق کی آزادی پھنس چکی ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے اس گورکھ دھندے کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں چند حقائق سامنے رکھنا پڑیں گے تا کہ گنجلک سیاسی صورت حال کا کوئی واضح چہرہ ہمارے سامنے آ سکے۔
پاکستان کی گھمبیر سیاسی صورت حال میں آج کے اقتدار کا یہ جھگڑا سیاسی سے زیادہ ' کاکولی مائنڈ سیٹ آفیسرز' اور 'آفیسرز ٹریننگ سکول منگلا' کی سوچ کے تضادات کا ہے، جس میں ہر جمہوری ذہن اس بات پر متفکر ہے کہ عدالتی سہولت کاری اور آئین کو اپنی من مانی سے تشریح کرنے یا ازسر نو تحریر کرنے ایسے ماحول میں آئین اور جمہوری اداروں کو کیسے اور کیونکر بچایا جائے؟
موجودہ سیاسی صورت حال میں جماعت اسلامی سے لے کر تحریک لبیک کے دھرنوں اور جابجا طالبان دہشت کردی سمیت عدلیہ کی عمران خان سہولت کاری کا جال بنیادی طور پر ' کاکولی مائنڈ سیٹ' کی اشرافیہ کا ہے، جس کا مقابلہ 'غیر کاکولی مائنڈ سیٹ' ملک کی جمہوری قوتوں کے ساتھ کر رہا ہے، جس کو مزید پیچیدہ اور گنجلک کرنے میں پی ٹی آئی کی سیاست سے متاثر دانشورانہ بددیانتی Intellectual Dishonesty کے پروپیگنڈے نے بھی عوام کو برداشت اور تحمل کے مقابل پروپیگنڈے اور سوشل میڈیائی جھوٹ میں ایسا جکڑ دیا ہے کہ 'غیر سیاسی انتشار پسند سوچ' سے عوام کی کمزور سیاسی سوچ جذباتی ہو کر اپنے ہی عزیز دوستوں اور بہی خواہوں کو دشمن سمجھ بیٹھی ہے یا ایک دوسرے سے وہ دور ہو چکی ہے یا اپنوں ہی سے ترک تعلق کر چکی ہے۔ اس انتشار پسند سوچ کا لازمی نتیجہ من مانی کرنے والی 'طالبان سوچ' کا پاکستان میں در آنا ہی سمجھا جا سکتا ہے جو کہ سماج کی سنجیدہ جمہوری و سیاسی سوچ کو بری طرح چبا رہی ہے۔ ہمارے سیاسی دانشور اور تجزیہ نگار اور اداروں میں بیٹھے افراد اس حد تک 'بد دیانت' اور جھوٹے بیانیے کا شکار ہو چکے ہیں کہ اب تک انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان ایسا ادارہ بھی اپنے ہاں سے 'بنوں واقعہ' پر ایک غلط رپورٹ کی اشاعت پر ناصرف شرمندہ ہے بلکہ تردید کرتا پھر رہا ہے۔
پاکستان میں 'دانشورانہ بددیانتی' کوئی نیا حربہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی 'دانشورانہ بددیانتی' پاکستان کے ابتدائی ایام سے ہی شروع ہو چکی تھی، جس میں ایک جانب کمیونسٹ نکتہ نظر تھا کہ پاکستانی سماج کو عوام کے جمہوری حقوق بلا تعطل دیے جائیں اور سیاست کو 'فوجی مداخلت' سے دور رکھا جائے جبکہ دوسرا نکتہ نظر 'برطانوی کاکولی اسٹیبلشمنٹ' کا تھا کہ اس ریاست کو 'سکیورٹی سٹیٹ' بنایا جائے جبکہ فوج میں سپاہی سے لے کر افسران کی تربیت بھی خود کو ماورا قوت سمجھنے اور عام فرد یا سویلین کو 'بلڈی سویلین' سمجھنے کے نکتہ نظر سے دی جاتی رہی۔ برٹش رائل اکیڈمی کے تربیت یافتہ ' کاکولی مائنڈ سیٹ' نے پاکستان کو سکیورٹی سٹیٹ رکھنے کے لئے تحریک پاکستان میں منفی کردار ادا کرنے والی مذہبی جماعتوں یعنی جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام کی مدد حاصل کی، جس کا اجر مذکورہ جماعتوں کو آمر جنرل ضیاء کے دور میں 'افغان جہاد' کے نام پر مدارس کے لئے پلاٹ لینے اور امریکی ڈالر کی امداد نوازنے کے نتیجے میں نکلا۔ جہادی تناظر میں آج بھی یہی مذکورہ جماعتیں 'سکیورٹی سٹیٹ' کے نکتہ نظر پر قائم ہیں جبکہ درونِ خانہ یہی قوتیں آج بھی جنرل حمید گل کے سدھائے گئے طالبان مائنڈ سیٹ ' عمران خان' کی اتحادی ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے 'دانشورانہ بدیانتی' کا پھیلایا گیا یہ پروپیگنڈہ بھی غلط تاریخی حقائق پر مبنی ہے کہ صرف پی ٹی آئی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف قوت بن کر ابھری ہے۔ اس جھوٹ کو عمران خان کے تین سالہ دورِ اقتدار میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ جب وہ 'کاکولی اسٹیبلشمنٹ' کے جاں نثار وکیل بنے ہوئے تھے اور آج بھی وہ سیاسی قوتوں کے مقابل طالبان مائنڈ سیٹ والی 'کاکولی اسٹیبلشمنٹ' کے طرزِفکر پر ملک کو چلانے کے لئے مختلف طریقوں سے ساز باز چاہتے ہیں۔
اس مرحلے پر یہ بات غور طلب ہے کہ 'تحفظِ آئین تحریک' کے اتحاد میں شامل مذہبی جہادی جماعتیں اور 'افغانیہ' بنانے والی 'اچکزئی' قوتیں ہی کیوں متحرک ہیں، جبکہ ان میں سے بیشتر نے 'منتخب جمہوریت' کے خلاف آرمی چیف جنرل ضیاء کے اشاروں پر 1977 کی تحریک چلا کر 'نظامِ مصطفی' کے نام پر عوام کو گمراہ کیا اور اس خطے میں امریکی مفادات کے لئے 'طالبان دہشت گردوں' کی کھل کر حمایت کی۔ اسی طرح کی کوشش آج بھی یہ جماعتیں 'رپبلیکن پینٹاگون' کی حمایت اور طالبان کی مدد سے عمران خان کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے کر رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان کو مسلسل غیر مستحکم رکھنے کی 'قسط دوم' چلانے کی کوشش میں نظام مصطفی والی پرانی قوتوں کو ' عمران خان' کا اتحادی بنایا گیا ہے تاکہ خطے کی سیاسی اور معاشی صورت حال کو خطے میں ممکنہ طور پر ابھرنے والے چین، روس، سعودی عرب اور ایران اتحاد سے دور رکھ کر اپنے سامراجی مفادات حاصل کیے جا سکیں۔
یہی وہ کوشش ہے جس میں پی ٹی آئی کے 'بد دیانت دانشور' عدلیہ اور میڈیا کو سہانے خواب دکھا کر عوام کو 'اسٹیبلشمنٹ مخالف' بیانیے کا لولی پوپ دے کر دراصل دوبارہ سے 'ریپبلیکن پینٹاگون' اور پاکستان کی 'کاکولی اسٹیبلشمنٹ' کو اقتدار کی ہما تھمانا چاہتے ہیں تا کہ خطے کی سیاست صرف اور صرف انتشار اور امریکی مفادات کے لیے جاری رہے۔ اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پروپیگنڈے کی تمام تربیت اور استعمال کی ٹریننگ باقاعدہ طور سے عمران خان کی پی ٹی آئی کو دی جاتی رہی جو آج تک بے سروپا ٹرینڈ بنانے اور منفی و لچر پروپیگنڈہ کرنے میں متحرک ہے، جس سے موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا نمٹنا ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ فوج میں 'سٹار جنرلز' کے مابین اختیارات کی جنگ جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دور میں بھی 'بغاوت' کے نام پر جاری رہیں، مگر آج اختیارات کی جنگ ایک ایسے 'نان کاکولین جنرل' کے خلاف نظر آ رہی ہے جس کو 'کاکولین طبقہ' ہضم کرنے میں 'طبقاتی کشمکش' کا شکار ہے اور اس سلسلے میں مذکورہ طبقہ ' عمران خان' کی انتشار پسند سیاست کے لئے متحرک ہو کر کبھی امریکن کانگریس، کبھی اقوام متحدہ اور کبھی ہاؤس آف لارڈز برطانیہ سے سیاسی آزادی اور انسانی حقوق کے نام پر قراردادیں منظور کروا کر عالمی دباؤ ڈال رہا ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اس پیچیدہ سیاسی صورت حال میں سوال یہ نہیں کہ عمران خان کو کس نے لانچ کیا یا عمران خان کی منظرعام پر آنے والی مختلف حرکات، غیر سیاسی بیانات، توہین عدالت کے معاملات و تاریخی حوالے کیوں عوام میں غیر سنجیدہ طریقے سے پھیلا کر ان کے جرائم اور پی ٹی آئی کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کو چھپانے یا صرف نظر کرنے کا کام بار بار بیل آؤٹ کر کے کیا جا رہا ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے ہر سیاسی عمل کے پس پردہ جنرل فیض حمید کی منصوبہ بندی اور کاکول مائنڈ سیٹ کی کوششیں کسی سے پوشیدہ ہیں؟
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
یہاں سوال یہ بھی نہیں کہ فوجی قیادت پر اس کے ماورائے آئین اقدامات کی روشنی میں تنقید نہ کی جائے۔ ملکی سیاسی تاریخ میں ہر زمانے اور سیاسی حالات کے تناظر میں فوج کی سیاست میں مداخلت پر ہمیشہ سیاسی طرز سے تنقید کی جاتی رہی ہے بلکہ سیاسی حقوق کی تحاریک کمیونسٹوں، ڈی ایس ایف، این ایس ایف سے لے کر محترمہ فاطمہ جناح اور ایم آر ڈی نے چلائیں اور اپنے ہدف حاصل کر کے جنرل ایوب کا جبری ون یونٹ ختم کروایا اور جنرل ضیا کو انتخابات کرانے پر مجبور کیا۔
اس سوال پر بھی ابتدا ہی سے سیاسی قیادت اور فوجی جنرلز کے درمیان تضاد رہا کہ یہ ملک جمہوری انداز سے چلے یا اسے سکیورٹی سٹیٹ بنایا جائے؟ جمہوری قوتیں ملک میں ہمیشہ جمہوری طرز حکمرانی پر زور دیتی رہیں جبکہ اقتدار کے خواہاں 'کاکولی جنرلز' کا مؤقف رہا کہ خطے کے حالات کے تناظر میں اسے 'سکیورٹی سٹیٹ' بنایا جائے۔ سیاست دانوں اور فوجی قیادت کے درمیان یہی وہ بنیادی تنازعہ تھا کہ جس نے ملک میں کم و بیش 24 برس آئین بننے نہ دیا، ملک کو دو لخت کیا گیا اور بعد میں فوجی قیادت نے اپنی ہم خیال سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ہمنوا بنا کر 'نیم سکیورٹی سٹیٹ' کے طور پر 1973 کے متفقہ آئین کو مجبوری میں قبول کیا۔ فوجی قیادت کی جانب سے 73 کے آئین کی کڑوی گولی کو 6 برس بھی برداشت نہ کیا گیا اور نظام مصطفی کی تحریک کے ذریعے جمہوری اور منتخب حکومت کی بساط جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگا کر لپیٹ دی اور 1979 میں جنرل ضیاء نے ملک میں امریکی حمایت میں افغانستان کے 'انقلاب' ثور کے خلاف پوری فوج میں جہادی مائنڈ سیٹ تیار کیا اور مذہبی جہادیوں کی فوج تیار کی جو آج بھی 'دہشت گرد طالبان' کی صورت میں پاکستان اور خطے کے لئے ایک خطرہ بنی ہوئی ہے۔
سکیورٹی سٹیٹ بیانیے کے 'کاکولی وکیلوں' نے ایم کیو ایم کے تجربے کے دوران ہی 'فاشسٹ' تربیت پر جماعت اسلامی فکر کے عمران خان کی سیاسی تربیت طالبان فکر کے جنرل حمید گل سے کروائی اور اقتدار کی سیاسی راہداریوں میں تحریک انصاف کی پہچان بھی کراتے رہے تا کہ جماعت اسلامی کی تنگ نظر مذہبی فکر سے نالاں نوجوانوں میں ماڈرن 'ہیرو ورشپ' کا تڑکا عمران خان کی صورت میں ڈالا جائے۔ سردست موجودہ سیاست میں جمہوریت کے مقابل سکیورٹی سٹیٹ بنانے کی کوششیں رکی نہیں ہیں، بلکہ موجودہ سیاسی ماحول میں ملکی سیاسی تاریخ سے بے خبر غیر سیاسی نسل کو ایک مرتبہ پھر 'ہیرو ورشپ' کے بخار میں مبتلا کر کے عمران خان کی مدد اور بیانیے سے 'سکیورٹی سٹیٹ' کے کمزور بیانیے کو مضبوط کرنے کی فاشسٹ طرز پر وہ خطرناک کوشش جاری ہے جس کے اجزائے ترکیبی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
اس پوری ہنگامہ خیز سیاسی صورت حال میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیوں اور کن مقاصد کے تحت عمران خان کو سیاست میں لایا گیا اور کن خاص مطلوبہ اہداف کے لیے عمران خان کو چنا گیا، آیا ان کی وجوہات کیا تھیں اور کیا ہو سکتی ہیں، سیاسی حالات و قرائن اور تجزیے کے پیچ و خم سے یہ گتھی سلجھانے میں چند معروضات پیش خدمت ہیں۔
1۔ عمران خان ہی کیوں؟
سوشل میڈیا ٹیکنالوجی میں رنگین مزاج کے کرکٹر عمران خان کو جہاں ہیرو بنانے کے قرائن بتاتے ہیں وہیں واقفان حال کے مطابق گولڈ اسمتھ کی مدد سے ورلڈکپ جتوانے سے لے کر عمران خان کی جمائمہ سے شادی تک کے حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ عمران خان کو جنرل ضیاء کی مدد سے مستقبل کے امریکی Paradigm یعنی غیر جمہوری طرز فکر نمونہ اپنانے کے لئے چنا گیا، جس میں شہرت اور ہیرو ورشپ کی ایڈورٹائزنگ کی مدد لے کر آج تک کی سوشل میڈیا کے ٹول کو مہارت کے ساتھ استعمال کیا گیا اور جنرل ضیاء کی طلبہ سیاست کی نس بندی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر سیاسی نئی نسل کو 'ہیرو ورشپ' میں مبتلا رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی جسے آج عمران خان کی پلانٹڈ سیاست میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں بیک وقت خاص منصوبہ بندی کے تحت جھوٹ بولنا اور عوام کے تبصروں میں رہنے کی حکمت عملی نظر آتی ہے، جو بظاہر تو جھوٹ اور غلط تاریخی حوالوں سے عبارت ہے مگر یہ عالمی منصوبہ بندی کے تحت پروپیگنڈہ مارکیٹ کی اصطلاح میں عوام کے اندر مسلسل رہنے اور شہرت حاصل کرنے کا منفی مارکیٹنگ طریقہ ہے جسے نظریاتی سوشلسٹ اور سنجیدہ جمہوری و سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کو ناصرف بہت باریکی سے دیکھنا ہے بلکہ غلط معاشی اعداد و شمار پیش کرنے کی منفی مارکیٹنگ 'جن' کے مقابل مثبت سیاسی و سماجی دور رس ٹیکنالوجیکل طریقہ ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔
2۔ حاکمیت کا تضاد اور پیراڈائم کی تبدیلی کا سوال
اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ہماری عسکری سپاہ کی بنیاد اور تربیت کا ادارہ برطانوی طرز یعنی Paradigm نمونے پر رہا اور فوجی ادارے کی بنیادی تربیت اور ذہن سازی برطانوی طرز عسکریت پر رہی، جس کا تاریخی ثبوت لیاقت علی خان کی مدد سے جنرل ایوب نے 'امریکی پیراڈائم' کے پلڑے میں اپنا ووٹ ڈالا اور خطے کی سیاسی صورت حال کے پیش نظر سیٹو سینٹو میں روس کے مقابل ریاست کے جھکاؤ کا پلڑا 'امریکی سامراج' کی جانب کیا۔ اس وقت خطے کی صورت حال کے پیش نظر امریکہ کو ایک آمرانہ سوچ کا فرد چاہیے تھا جو خطے میں ان کے مقاصد اور مفادات کا تحفظ کر سکے، لہٰذا امریکی سامراج نے جنرل ایوب کو دامے درمے اور سخنے ناصرف قبول کیا بلکہ جنرل ایوب کے غیر جمہوری اقتدار کو عالمی طور سے تحفظ بھی دیا۔ تاریخ کے تناظر میں یہ بات ذہن میں رہے کہ برطانوی سامراج اس عمل سے نہ بے خبر تھا اور نہ لا تعلق، بلکہ اس وقت برطانوی سامراج عالمی طور سے توسیع پسندانہ اقتدار کی تنقید کی زد پر تھا، سو اس نے پاکستان کی فوج کے پیراڈائم شفٹ ہونے پر خاموشی اختیار کی اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچایا۔ گو دونوں ممالک کے رابطے اور سفارتی معاملات کبھی نہ بگڑے اور نہ دونوں نے مشترکہ مفادات میں بگڑنے دیے، جس کا عکس ٹونی بلیئر کی عراق کے خلاف مشترکہ چڑھائی میں دیکھا جا سکتا ہے۔
امریکی پیراڈائم کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی طور جنرل ضیاء کے خاتمے کے بعد جنرل پرویز مشرف کی مدد سے خطے میں متوازی پیراڈائم کے لئے اپنی تھرڈ فورس 'طالبان' کے ذریعے امریکی ایما پر اپنی من مانی کرتا رہا، جسے یہاں کی 'کاکولی فوجی قیادت' نے سہولت فراہم کی، مگر برطانوی پیراڈائم نے مختلف جنرلز کے ذریعے اپنی موجودگی برقرار رکھی۔ پھر جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ' کاکولی مائنڈ سیٹ' کے برعکس ملک کے مختلف صوبوں کے آفیسرز کو کمیشن اور OTS منگلا میں تربیت دینے کی پالیسی بنائی جو ' کاکولی مائنڈ سیٹ' نے جبری طور سے سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے افسران کو قبول کیا اور آخرکار جنرل کیانی کے ہٹتے ہی OTS منگلا میں افسروں کی تربیت کے اس ادارے کو 2016 میں بند کر دیا گیا، جس کے بارے میں باوثوق اطلاعات ہیں کہ 'موجودہ اشرافیہ' کے سپہ سالار دوبارہ سے اس 'کیانی فارمولے' کو جاری کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فارمولا آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو یکساں حقوق دینے کا اہم جز ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے عمل میں رکاوٹ کے طور پر دھوم دھام انداز میں عمران خان کو لانچ کیا گیا، جس میں ' کاکولی مائنڈ سیٹ' مکمل کامیاب نہ ہو سکا۔ ملک میں موجودہ عسکری تضاد کو امریکی پیراڈائم اور برطانوی پیراڈائم میں دیکھنے کی ضرورت ہے جس کی شفٹنگ کا یہ خاموش مگر معنی خیز تضاد اب تک موجود ہے۔
امریکی آمرانہ طرز کے پیراڈائم کو جوں کا توں رکھنے میں عمران خان کے ساتھ گولڈ اسمتھ سمیت امریکی مفادات کے افراد کی اس امریکی لابی کے خدشے کو بھی خارج از امکان نہیں کیا جا سکتا جس کی گرفت امریکی معاشی نظام پر بہت مضبوط ہے۔ اسی تناظر میں 'باجوہ ڈاکٹرائن' کے خدوخال پر 'ہائبرڈ نظام' کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے سیاسی ماحول کی گاڑی کو چلانے والی اٹھارہویں ترمیم میں جمہوری آئین کی بحالی پر پھر ایک مرتبہ جنرل ایوب ایسی یک طرفہ طاقت اور اقتدار اپنے پاس رکھنے والوں کا کھیل شروع کیا گیا، جس میں عمران خان کی مدد کے لئے عالمی طور پر مکمل مارکیٹنگ کے تناظر میں جمائمہ کے متحرک ہونے کے شواہد دیکھے جا سکتے ہیں۔
فاشسٹ اور آمرانہ طرز حکومت کے مقابل دوسری جانب اپنے عسکری وجود کو قائم رکھتے ہوئے آئین کے مطابق جمہوری قوتوں کو شریک کار بنانے کی سوچ ہے، جس میں فاشسٹ پیراڈائم کی ترجمانی عمران خان کے بیانات اور سوچ سے بخوبی لگائی جا سکتی ہے، جبکہ قرائن بتاتے ہیں کہ عمران خان کو 'پلانٹ' اور بیل آؤٹ کرنے والے چاہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ کر عدالتی سہولت کاری اور دانشورانہ بد دیانتی Intellectual Dishonesty سے آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو ختم کریں یا جنرل ضیاء کی طرح اس ترمیم کا حشر نشر کر دیں جبکہ دوسری سوچ کا پیراڈائم ان کی فاشسٹ سوچ کے مدمقابل اب تک ایک بہت مضبوط اور مثبت و جمہوری سوچ کی رکاوٹ کے طور پر کھڑا ہے۔ اصل جنگ اور تضاد ' کاکولی مائنڈ سیٹ' اور 'غیر کاکولی جنرل عاصم منیر' کے ساتھ جمہوری سوچ اور فاشسٹ یا آمرانہ سوچ کے نکتہ نظر کا ہے، جسے جتنی جلد ہو سمجھ لیا جانا چاہیے۔