بھارت میں آج سے زرعی شعبے میں مودی حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی مبینہ اصلاحات کی مخالفت میں کسان ملک گیر ہڑتال پر موجود ہیں ۔
ستمبر کے مہینے میں جب سے زراعی اصلاحات کے نام پر بازار حمایتی قوانین متعارف کروائے گئے ہیں۔ اس کے بعد سے کسان اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور گذشتہ 12 دنوں سے وہ ہزاروں کی تعداد میں دارالحکومت دہلی میں داخل ہونے والے مختلف راستوں پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ کارپوریٹ سیکٹر کو کھلی چھوٹ دینے کےمترادف ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ جلد سپورٹ پرائس کا مکمل نظام ہی لپیٹ دیا جائے گا۔
بی بی سی نے لکھا کہ کسانوں کی اکثریت کا تعلق شمالی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ سے ہے اور یہ ملک کی امیر ترین زرعی برادریاں ہیں۔ ان کی مہم کو سوشل میڈیا پر بھارت پنجاب اور سمندر پار موجود بھارت کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔
پنجاب اور ہریانہ کو بھارت میں خوراک کی فراہمی کے لیے نہایت اہم تصور کیا جاتا ہے اور یہاں کے عمر رسیدہ کسانوں پر سخت سردی میں آنسو گیس اور واٹر کینن کے استعمال کی تصاویر تیزی سے وائرل ہو رہی ہیں۔ اور ان سے بظاہر انھیں زبردست عوامی ہمدردی حاصل ہو رہی ہے۔
حکومت کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور ناکام ہونے کے بعد اس ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ متنازع اصلاحات زرعی اجناس کی فروخت، قیمت اور ذخیرہ کرنے کے حوالے سے موجود نظام کو بدلیں گے۔ بی بی سی کے مطابق کسان ان قواعد کی وجہ سے دہائیوں تک آزادانہ مارکیٹ کی قوتوں سے محفوظ رہے ہیں۔
ان نئے قوانین سے نجی خریدار بھی مستقبل میں فروخت کے لیے ضروری اجناس ذخیرہ کر سکتے ہیں، جو کہ اس سے پہلے صرف حکومت سے منظور شدہ ایجنٹ ہی کر سکتے تھے۔ ان نجی خریداروں میں ایگری بزنس میں شامل کارپوریٹ سیکٹر بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ ان میں ٹھیکے پر زراعت کے قواعد بھی بنائے گئے ہیں جس میں کسان کسی مخصوص خریدار کی طلب کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی پیداوار میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔
سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ کسان اپنی پیداوار براہِ راست نجی شعبے (زرعی کاروبار، سپرمارکیٹس اور آن لائن سودا سلف کی ویب سائٹس) کو مارکیٹ قیمتوں پر فروخت کر سکیں گے۔ زیادہ تر انڈین کسان اس وقت اپنی پیداوار کا زیادہ تر حصہ حکومت کے زیر انتظام تھوک منڈیوں میں امدادی قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔
کسانوں کا بڑا طبقہ اسے استحصالی شکنجے کے طور پر دیکھتا ہے اور تحریک کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ فری مارکیٹ اکانومی کے اس اصول نے مغربی ممالک کو بھی تکالیف سے دوچار کیا ہے لیکن یہاں پر تو نہ کوئی اصول ہے نہ ضوابط، یہاں تو یہ کسی صورت بھی قابل عمل نہیں ہے۔
احتجاجی کسانوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور 9 دسمبر کو متوقع ہے.