Get Alerts

'ایچ ای سی کے معاملات میں مداخلت، حکومت توہین عدالت کررہی ہے'

'ایچ ای سی کے معاملات میں مداخلت، حکومت توہین عدالت کررہی ہے'
ڈاکٹر اے ایچ نیئر، فرحت اللہ بابر، پرویز ہود بھائی اور مشرف زیدی نے کہا ہے کہ چیئرمین ایچ ای سی کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد سیکرٹری ایجوکشن کی جانب سے جاری مراسلہ، طارق بنوری کے اختیارات سلب کرکے کسی اور کو تضویض کیا جانا، ایچ ای سی کے معاملات میں مداخلت اور توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
ان نامور شخصیات کا کہنا تھا کہ حکومتی ہٹ دھرمی کا ملک کی جامعات اور تعلیم کو نقصان ہو رہا ہے۔ ایچ ای سی کے فنڈز کا آڈٹ وقت کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے ساتھ کھلواڑ بند کیا جائے۔
ڈاکٹر اے ایچ نیئر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈاکٹر طارق بنوری کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے عہدے پر بحال کرتے ہوئے حکومتی فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا تھا جس کے بعد سیکرٹری ایجوکشن کی جانب سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس کے مطابق چیئرمین ایچ ای سی کو اپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکتے ہوئے ان کے اختیارات ایک خاتون ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو تصویض کر دیئے گئے ہیں جو کہ ایچ ای سی کے معاملات میں کھلی مداخلت اور توہین عدالت ہے۔
فرحت اللہ بابر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ایچ ای سی ایک خود مختار ادارہ ہے جس کا کام ملک کی جامعات کو ریگولیٹ کرنا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے چیئرمین ایچ ای سی کی پالیسیوں سے اختلافات کی بنا پر قانوں کے اندر ایک آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کرتے ہوئے چیئرمین کے اختیارات کو سلب کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹا دیا تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں دوبارہ بحال کر دیا مگر حکومت عدالت کا فیصلہ ماننے کی بجائے چیئرمین کو نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہے، جس کا نقصان ملک کی جامعات اور تعلیم کو ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کے پیچھے وہ کرپٹ مافیا ہے جو ایچ ای سی کے فنڈز کے آڈٹ میں رکاوٹ ہے۔ ایچ ای سی کے حوالے سے حکومتی آرڈیننس کو سینٹ میں ختم کیا جا سکتا تھا، مگر حکومت نے یہ آرڈیننس سینٹ میں پیش کرنے کے بجائے جوائنٹ سیشن سے پاس کروایا۔ حکومت تعلیم کو تباہ کرنے سے باز رہے۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر طارق بنوری کو نکلوانے کی سازش کے پیچھے ڈاکٹر عطا الرحمان ہیں۔ لگتا ہے حکومت کسی شخص کو احتساب سے بچانا چاہتی ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ کے دوران ایچ ای سی کو ملنے والے فنڈز کا آڈٹ بہت ضروری ہے کیونکہ اسے غیر ضروری چیزوں پر لگایا گیا۔ عدالتی بحالی کے بعد ان کی غیر موجودگی میں بورڈ کے فیصلوں کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔