سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ ان سے الحاق شدہ کالجوں اور ذیلی کیمپس کی بےمہار توسیع اور اس کے نتیجے میں ان کے بے مقصد اور غیر منظور شدہ تعلیمی اداروں اور پروگراموں کے پھیلائو نے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
تدریسی، تحقیق اور ڈگریوں کی مقصدیت اور معیار میں مسلسل گراوٹ کی جڑیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اپنے آغاز سے صرف نمبروں کو ترجیح دینے سے پیوستہ ہیں۔ 2002 میں جب ایچ ای سی کا قیام عمل میں آیا، اس وقت 42 یونیورسٹیاں تھیں جن میں نجی شعبہ کی 10 یونیورسٹیاں بھی شامل تھیں لیکن تعلیم کا معیارمعقول حد تک برقرارتھا۔
ابتدائی تین سالوں میں سرکاری فنڈنگ میں تقریباً 1,200 فیصد اضافے کے ساتھ ایچ ای سی نے رسائی کے نام پر یونیورسٹیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی معاونت کرتے ہوئے معیار پر سمجھوتہ کرنا شروع کیا۔ یہی روش بڑی حد تک فضول غیر ملکی سکالرشپس اور ریسرچ گرانٹس کی فراہمی میں بھی روا رکھی گئی۔
بےشمار تحقیقی مراکز قائم کئے گئے۔ تدریس سے وابستہ لوگوں نے اپنی مراعات یا مالی فوائد کیلئے غیر مجاز پوسٹ گریجویٹ تحقیق کرانا شروع کردی اور بے مقصد مضامین شائع کرنا شروع کر دیئے۔
جہاں پوسٹ گریجویٹ پروگراموں کے ساتھ ساتھ فیکلٹیز، شعبہ جات اور انسٹیٹیوٹ کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا وہیں ایچ ای سی پہلے سے موجود یونیورسٹیوں کے معیار کو بھی یقینی بنانے میں ناکام رہی۔
یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانے کی مہم کے باعث وسائل پر بہت دبائو آیا۔ بہت سے واقعات میں پیشہ ورانہ اداروں نے نئے ڈیپارٹمنٹس اور ڈگری پروگراموں کی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔
پنجاب میں سرکاری شعبہ کی یونیورسٹیوں نے ایچ ای سی کی اجازت کے بغیر کئی سرکاری سب کیمپسز اور نجی شعبہ کی شراکت سے اپنے ذیلی کیمپسز کھولے۔ متعدد کالجوں کو فیکلٹی اور بنیادی ڈھانچے کی ضروریات کو جانچے بغیر وابستگی دی گئی۔
نجی شعبہ نےایچ ای سی کے قواعد وضوابط اور معیار کے پیرامیٹرز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نئی فیکلٹیز، ڈیپارٹمنٹس، پروگرامز اور ذیلی کیمپسز کھول کر اس رجحان کو زیادہ جارحانہ انداز میں استعمال کیا۔
2018 تک یونیورسٹیوں اور ڈگری دینے والے اداروں کی تعداد 186 تک پہنچ گئی۔ یہ سچ ہے کہ کسی کسی موقع پر ایچ ای سی یا عدلیہ نے خلاف ورزی کرنے والوں کا محاسبہ بھی کیا۔
مثال کے طور پرغیر مجاز سرکاری ونجی شعبہ کی شراکت سے چلنے والے پوسٹ گریجویٹ پروگراموں اور ذیلی کیمپسز کو بند کیا گیا تاہم مقدار کو معیار سے بدلنے کی ٹھوس کوشش صرف 2019 میں شروع ہوئی جب ایچ ای سی نے اپنے ادارہ جاتی جائزہ کو مزید سخت بنایا۔
غیر ملکی سکالرشپس اور تحقیقی گرانٹس پر فضول خرچی کو کم کیا اور تحقیقی مضامین کی اشاعت کے لئے نظرثانی شدہ معیار نافذ کیا۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ ایچ ای سی نے ڈاکٹر طارق بنوری کی قیادت میں وسیع پیمانے پر تعلیمی تنظیم نو کا ایک پروگرام شروع کیا۔ عالمی وبا کے درمیان آن لائن تعلیم کی جانب کامیاب منتقلی کو آگے بڑھایا۔ نتیجتاً، انڈر گریجویٹ اور پی ایچ ڈی پروگراموں کے لئے نئی پالیسیاں متعارف کرائی گئیں۔
سرکاری اور نجی شعبے کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی مشاورت سے پرانے بیچلرز اور ماسٹرز پروگرامز کو ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام سے تبدیل کر دیا گیا۔ ان کی نمایاں خصوصیات قابل ذکر ہیں۔ انڈر گریجویٹ پالیسی انڈر گریجویٹ تعلیم کا مقصد سیکھنا رکھا گیا جو علم، ہنر اور پیشہ ورانہ اور باہمی تعلقات پر مبنی ہے۔
سیکھنے کے مقاصد کو تین وسیع شعبوں میں تقسیم کیا گیا جس میں عمومی قابلیت (وسیع عمومی تعلیم، نظم وضبط کی اہلیت)، گہرائی (نظم و ضبط کا علم) اور عملی قابلیت (پیشہ ورانہ اور سماجی ماحول کی سمجھ) شامل ہیں۔
سٹیم (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی) کے مضامین کے ساتھ ساتھ سماجی علوم، فنون اور معاشرتی علوم کے کلیدی مضامین شامل ہیں۔ اس پالیسی کا مقصد اس بات کو یقینی بنا کر کہ طلبہ کو کیا پڑھنا چاہیے؟ کی ضرورت کو سمجھا جائے۔ یونیورسٹیاں قابلیت کی وسیع رینج کو سمجھیں۔ طلبہ کو اپنے پیشے کے انتخاب کے بارے میں تخلیقی طور پر سوچنے کی ترغیب دیں اور عملی تعلیم پر زور دیں، تعلیم کے معیار کو بلند کیا جائے۔
انڈر گریجویٹ پالیسی میں ابتدائی دو سالوں کے لئے ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اسے اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس کے کریڈٹس بی ایس پروگرام کے ساتھ اوورلیپ ہوتے ہیں جس سے طلبہ کو بی ایس یا اس کے برعکس جانے کے قابل بنایا گیا ہے۔
مذکورہ بالا تین مہارتوں کے ساتھ پروگرام کا مقصد گریجویٹس کو مختلف پیشوں میں ملازمت کی بنیادی مہارتوں سے آراستہ کرنا ہے۔ ایک ساتھ دونوں پروگرامز کے اجرا سے یونیورسٹی میں طالبعلم کے داخلے کے دو سے چار سال کے اندر ہنرمند افرادی قوت پیدا کرنا ہے جو روزگار کمانے کے قابل ہو۔
انڈرگریجویٹ پالیسی بی ایس کو ایک فلیگ شپ پروگرام کے طور پر دیکھتی ہے جو طلبہ کی اکثریت کے لئے ٹرمینل ڈگری کے طور پر کام کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے جو جاب مارکیٹ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیں اور انہیں کسی اور ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ تمام مغربی ممالک میں درست ہے جہاں انڈر گریجویٹ طلبہ کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہی تعلیمی عہدوں میں شامل ہونے کے لئے گریجویٹ تعلیم حاصل کرتا ہے۔ باقی مختلف پیشہ ورانہ ملازمتوں کے لئے انسانی سرمائے کے طور پر ہنر مند اے ڈی اور بی ایس گریجویٹس کا مستقل بہائو تشکیل دیتے ہیں۔
انڈرگریجویٹ تعلیم گریجویٹوں کو سیکھنے کا طریقہ جاننے کی ضروری مہارت فراہم کرتی ہے۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر مستقبل کی تمام فکری پیشرفت کی تعمیر ہوتی ہے۔ بشمول اگر طالب علم چاہے تو علمی تدریس اور تحقیق کے میدان میں داخل ہونے کے لئے پی ایچ ڈی کرے۔
پی ایچ ڈی پالیسی وسیع مقصد کی وضاحت کرتی ہے کہ بہترین لوگوں کو تعلیمی تدریس اور تحقیق کی طرف راغب کیا جائے۔ اس مقصد کو داخلہ کے معیار میں اپنایا جاتا ہے۔ بشمول تیاری اور طلبہ کاعزم مستقبل کی کامیابی کے لئے دوسرے معاونین کی نشاندہی کرتے ہیں۔
خاص طور پر رہنمائی اور حتمی تشخیص کے لئے کم از کم معیارات طے کئے جاتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ یونیورسٹیوں کو بہترین کی تلاش میں شراکت دار بنا کر ان کی ساکھ اوران کی ڈگریوں کی قدر کو بڑھا کر اور طلبہ کے ساتھ ساتھ فیکلٹی کے درمیان بہترین اور ذہین افراد کوجمع کرکے تعلیم کے معیار میں اپنا حصہ ڈالا جائے۔
بدقسمتی سے ان اصلاحات کو رد کر دیا گیا کیونکہ اپریل 2021 میں ایچ ای سی کے آرڈیننس میں ترمیم کرکے ڈاکٹر بنوری کو ریگولیٹری باڈی کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
اس کی خود مختاری کو ختم کر دیا گیا تھا۔ جمود کے رکھوالے جو نمبرز کے کھیل میں پروان چڑھے ہیں۔ ایچ ای سی کی ترقی پسند اصلاحات سے پریشان تھے اور انہوں نے پچھلے دس مہینوں میں اس عمل کو ناکام بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
دریں اثناء معیار بھی مفت زوال میں رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں مزید 50 یونیورسٹیوں کا اضافہ کیا گیا ہے جس سے ان کی کل تعداد 232 ہو گئی ہے جن میں نجی شعبے کی 92 یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ صرف پنجاب میں نجی یونیورسٹیوں کے 23 ذیلی کیمپس غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔
اب نئی یونیورسٹیاں کھولنے کے لئے دوڑ لگی ہوئی ہے۔ موجودہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کو مالی طور پر برقرار رکھنے کے لئے درکار رقم کے بغیر صوبائی حکومت ایسی 19 نئی یونیورسٹیاں کھول کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کاروباری مفادات رکھنے والوں نے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ملی بھگت کرکے صوبائی ایچ ای سی اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو نظر انداز کیا اور پرائیویٹ ممبر بلز کے ذریعے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے چارٹر حاصل کئے۔
جون 2021 سے اب تک پنجاب اسمبلی نے ایسے 14 بل منظور کرکے انہیں قانون کی شکل دی ہے۔ مزید راستے میں ہیں۔ یہی رجحان موجودہ پرائیویٹ یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کرکےان کی فیکلٹیز، شعبہ جات اور ڈگری پروگراموں میں اضافہ کرنے میں نظر آتا ہے جبکہ نئی قائم شدہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں وسائل کی کمی کی وجہ سے غیر فعال ہیں، موجودہ یونیورسٹیاں معیار گرانے کے راستے پر گامزن ہیں۔
شکر ہے معزز اسلام آباد ہائی کورٹ نے بالاخر ڈاکٹر بنوری کو ایچ ای سی کے چیئرمین کے طور پر بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے یہ امید دوبارہ پیدا ہوئی ہے کہ ان کی قیادت میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اہم اصلاحات روشن مستقبل کی ضمانت بنیں گی۔
اس مقصد کے لئے مزید وقت درکار ہے جو اس وقت واضح ہوگا جب معزز عدالت اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کرے گی۔ ان اصلاحات کے بغیر نمبروں کا بدصورت کھیل یا اعلیٰ تعلیم کے معیار میں کمی ناقابل برداشت قومی نقصان کرے گی۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد پروفیسر ہیں اور پاکستان کی تاریخ سے متعلق کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔